نظم
جھلکا جھلکا سپیدۂ صبح جھلکا جھلکا سپیدۂ صبح تارے چھپتے ہیں جھلملا کر ہے نور سا جلوہ گر فلک پر بھینی بھینی مہک گلوں کی اور نغمہ زنی وہ بلبلوں کی وقت صحرا اور تنگ ہوا ہے بے مے سب کرکرا مزا ہے اک چلو کے دینے میں یہ تکرار اٹھو جاگو سحر ہوئی یار دریا کی طرف چلے نہانے غٹ پریوں کے ...