Rashid Noor

راشد نور

راشد نور کی غزل

    در جو کھولا ہے کبھی اس سے شناسائی کا

    در جو کھولا ہے کبھی اس سے شناسائی کا ایک منظر نظر آیا مجھے تنہائی کا اپنی آنکھیں نہ سجانا کسی دروازے پر چشم حیراں کو بھروسہ نہیں بینائی کا زخم آرائی میں سب زخم پرانے تھے مگر زخم تازہ ہی رہا اس کی شناسائی کا عرصۂ ہجر سے پھر وصل کی سرشاری تک حوصلہ دل کو بہت چاہیئے پسپائی کا

    مزید پڑھیے

    اب زیست مرے امکان میں ہے

    اب زیست مرے امکان میں ہے وہ لمحہ لمحہ دھیان میں ہے کچھ پھول تھے وہ بھی سوکھ گئے اک حسرت سی گلدان میں ہے اک تانتا سوچ نے باندھا تھا اب چہرہ روشندان میں ہے دل ڈوبا پہلے غربت میں اب پانی کچے مکان میں ہے وہ معرکۂ دل جیت کے بھی پھر تنہا دل میدان میں ہے ہے دشمن مرے تعاقب میں اور ...

    مزید پڑھیے