Rashid Noor

راشد نور

راشد نور کے تمام مواد

2 غزل (Ghazal)

    در جو کھولا ہے کبھی اس سے شناسائی کا

    در جو کھولا ہے کبھی اس سے شناسائی کا ایک منظر نظر آیا مجھے تنہائی کا اپنی آنکھیں نہ سجانا کسی دروازے پر چشم حیراں کو بھروسہ نہیں بینائی کا زخم آرائی میں سب زخم پرانے تھے مگر زخم تازہ ہی رہا اس کی شناسائی کا عرصۂ ہجر سے پھر وصل کی سرشاری تک حوصلہ دل کو بہت چاہیئے پسپائی کا

    مزید پڑھیے

    اب زیست مرے امکان میں ہے

    اب زیست مرے امکان میں ہے وہ لمحہ لمحہ دھیان میں ہے کچھ پھول تھے وہ بھی سوکھ گئے اک حسرت سی گلدان میں ہے اک تانتا سوچ نے باندھا تھا اب چہرہ روشندان میں ہے دل ڈوبا پہلے غربت میں اب پانی کچے مکان میں ہے وہ معرکۂ دل جیت کے بھی پھر تنہا دل میدان میں ہے ہے دشمن مرے تعاقب میں اور ...

    مزید پڑھیے