Rasheed Nisar

رشید نثار

رشید نثار کی غزل

    اپنے زندہ جسم کی گفتار میں کھویا ہوا

    اپنے زندہ جسم کی گفتار میں کھویا ہوا خواب کیسے دیکھتا دوپہر کا سویا ہوا جب سماعت کے کبوتر آسماں میں چھپ گئے تب وہ میرے پاس آیا شوق سے گویا ہوا میں تو اس کے لمس کی خواہش میں جی کر مر گیا اس کا سارا جسم تھا اغیار کا دھویا ہوا نفرتوں کے بیچ میرے کھیت میں لایا تھا وہ جس کے باغوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی تو ہے کہ نئے راستے دکھائے مجھے

    کوئی تو ہے کہ نئے راستے دکھائے مجھے ہوا کے دوش پہ آئے غزل سنائے مجھے کسے خبر ہے کہ جیتا ہوں جاگتا ہوں میں وہ ایک شخص ہر اک موڑ پر بچائے مجھے لرزتے پاؤں بھی میرے عصا بدست بھی میں وہ بازوؤں پہ اٹھائے کبھی چلائے مجھے ہے اس کے نام کی مالا مرے لبوں کا سبو میں اس کو شعر سناؤں وہ ...

    مزید پڑھیے

    میں اسے اپنے مقابل دیکھ کر گھبرا گیا

    میں اسے اپنے مقابل دیکھ کر گھبرا گیا اک سراپا مجھ کو زنجیریں نئی پہنا گیا میں تو جل کر بجھ چکا تھا اک کھنڈر کی گود میں وہ نہ جانے کیوں مجھے ہنستا ہوا یاد آ گیا میں زمیں کی وسعتوں میں سر سے پا تک غرق تھا وہ نظر کے سامنے اک آسماں پھیلا گیا سوچ کے دھاگوں میں لپٹا میرا اپنا جسم ...

    مزید پڑھیے

    میں چوب خشک سہی وقت کا ہوں صحرا میں

    میں چوب خشک سہی وقت کا ہوں صحرا میں سحر پکارتی مجھ کو تو ساتھ چلتا میں مرے وجود میں زندہ صدی کا سناٹا تہ زمیں ہوں کوئی بولتا سا دریا میں ہر ایک زاویہ میرے لہو کے نام سے ہے بتا رہا ہوں نئی وسعتوں کو رستا میں بہت سے لوگ تو جیتے ہی جی کے مرتے ہیں بس ایک شخص کہ مرتا ہوں روز تنہا ...

    مزید پڑھیے

    سرحد جسم پہ حیران کھڑا تھا میں بھی

    سرحد جسم پہ حیران کھڑا تھا میں بھی اپنے ہی ساتھ سر دار لڑا تھا میں بھی واسطہ مجھ کو ثمر سے تھا نہ ترغیب سے تھا نیم وا ہاتھوں میں مٹی کا گھڑا تھا میں بھی روزن وقت میں دم دار صدا تھی کس کی سانپ کی راہ میں گٹھری میں پڑا تھا میں بھی اس کے سینے میں جہنم تھا لہو بھی لیکن ایک سولی کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    سواد شام پہ سورج اترنے والا ہے

    سواد شام پہ سورج اترنے والا ہے ٹھہر بھی جا کہ یہ منظر ابھرنے والا ہے ملیں گے داغ ستارے چراغ و شبنم بھی غموں کی رات کا چہرہ نکھرنے والا ہے چلو جلوس کی صورت میں زندگی والو ذرا سی دیر میں لمحہ گزرنے والا ہے کوئی تو دہر میں زندہ رہے خداوندا ترے جہان میں انسان مرنے والا ہے وہ اپنی ...

    مزید پڑھیے

    نہیں تھا زخم تو آنسو کوئی سجا لیتا

    نہیں تھا زخم تو آنسو کوئی سجا لیتا کسی بہانے غم آبرو بچا لیتا خبر نہ تھی کہ سیاہی کا جال پھیلے گا لہو کی آگ سر شام ہی جلا لیتا زباں پہ حرف بھی آیا جنوں کا پتھر بھی میں بے لباس تھا کس کس کا آسرا لیتا جگا دیا تھا دکھوں کے جلوس نے ورنہ میں آج دامن شب تاب سے ہوا لیتا پلٹ گیا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    دریا کو اپنے پاؤں کی کشتی سے پار کر

    دریا کو اپنے پاؤں کی کشتی سے پار کر موجوں کے رقص دیکھ لے خود کو اتار کر سورج ترے طواف کو نکلے گا رات دن تو آپ وقت ہے تو نہ لمحے شمار کر ہابیل تیری ذات میں قابیل ہے مگر اپنے لہو کو بیچ دے خواہش کو مار کر اشکوں کے دیپ بک گئے بازار میں تو کیا عہد گراں میں اپنے پسینے سے پیار کر اک ...

    مزید پڑھیے

    ذات کے کمرے میں بیٹھا ہوں میں کھڑکی کھول کر

    ذات کے کمرے میں بیٹھا ہوں میں کھڑکی کھول کر خود کو میں بہلا رہا ہوں اپنے منہ سے بول کر صرف ہونٹوں کا تبسم زیست کا گلزار ہے اب نہ دنیا کو دکھا اشکوں کے موتی رول کر لفظ کی نازک صدا پر زندگی کا بوجھ ہے بات بھی دنیا خریدے اس جہاں میں تول کر اک جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں سب پرانے واسطے اپنی ...

    مزید پڑھیے