Rasheed Nisar

رشید نثار

رشید نثار کے تمام مواد

9 غزل (Ghazal)

    اپنے زندہ جسم کی گفتار میں کھویا ہوا

    اپنے زندہ جسم کی گفتار میں کھویا ہوا خواب کیسے دیکھتا دوپہر کا سویا ہوا جب سماعت کے کبوتر آسماں میں چھپ گئے تب وہ میرے پاس آیا شوق سے گویا ہوا میں تو اس کے لمس کی خواہش میں جی کر مر گیا اس کا سارا جسم تھا اغیار کا دھویا ہوا نفرتوں کے بیچ میرے کھیت میں لایا تھا وہ جس کے باغوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی تو ہے کہ نئے راستے دکھائے مجھے

    کوئی تو ہے کہ نئے راستے دکھائے مجھے ہوا کے دوش پہ آئے غزل سنائے مجھے کسے خبر ہے کہ جیتا ہوں جاگتا ہوں میں وہ ایک شخص ہر اک موڑ پر بچائے مجھے لرزتے پاؤں بھی میرے عصا بدست بھی میں وہ بازوؤں پہ اٹھائے کبھی چلائے مجھے ہے اس کے نام کی مالا مرے لبوں کا سبو میں اس کو شعر سناؤں وہ ...

    مزید پڑھیے

    میں اسے اپنے مقابل دیکھ کر گھبرا گیا

    میں اسے اپنے مقابل دیکھ کر گھبرا گیا اک سراپا مجھ کو زنجیریں نئی پہنا گیا میں تو جل کر بجھ چکا تھا اک کھنڈر کی گود میں وہ نہ جانے کیوں مجھے ہنستا ہوا یاد آ گیا میں زمیں کی وسعتوں میں سر سے پا تک غرق تھا وہ نظر کے سامنے اک آسماں پھیلا گیا سوچ کے دھاگوں میں لپٹا میرا اپنا جسم ...

    مزید پڑھیے

    میں چوب خشک سہی وقت کا ہوں صحرا میں

    میں چوب خشک سہی وقت کا ہوں صحرا میں سحر پکارتی مجھ کو تو ساتھ چلتا میں مرے وجود میں زندہ صدی کا سناٹا تہ زمیں ہوں کوئی بولتا سا دریا میں ہر ایک زاویہ میرے لہو کے نام سے ہے بتا رہا ہوں نئی وسعتوں کو رستا میں بہت سے لوگ تو جیتے ہی جی کے مرتے ہیں بس ایک شخص کہ مرتا ہوں روز تنہا ...

    مزید پڑھیے

    سرحد جسم پہ حیران کھڑا تھا میں بھی

    سرحد جسم پہ حیران کھڑا تھا میں بھی اپنے ہی ساتھ سر دار لڑا تھا میں بھی واسطہ مجھ کو ثمر سے تھا نہ ترغیب سے تھا نیم وا ہاتھوں میں مٹی کا گھڑا تھا میں بھی روزن وقت میں دم دار صدا تھی کس کی سانپ کی راہ میں گٹھری میں پڑا تھا میں بھی اس کے سینے میں جہنم تھا لہو بھی لیکن ایک سولی کی طرح ...

    مزید پڑھیے

تمام