Rajab Ali Beg Suroor

رجب علی بیگ سرور

انیسویں صدی کے ممتاز فکشن نگار، اپنی افسانوی تخلیق ’فسانۂ عجائب‘ کے لئے مشہور

Towering 19th century fiction writer, famous for his magnum opus Fasana-e-Ajaaib.

رجب علی بیگ سرور کے تمام مواد

12 غزل (Ghazal)

    ناصحا فائدہ کیا ہے تجھے بہکانے سے

    ناصحا فائدہ کیا ہے تجھے بہکانے سے کار ہشیار کہیں بھی ہوا دیوانے سے نہ غرض کعبے سے مطلب ہے نہ بت خانے سے ہے فقط ذوق مجھے یار کے گھر جانے سے وہ اٹھا کیا کہ ابر کرم پہلو سے چشم سے چشم بہے شوخ کے اٹھ جانے سے سوزش دل نہ یقیں ہو تو جگر چیر کے دیکھ آبلے لاکھوں پڑے تیرے ہی غم کھانے سے

    مزید پڑھیے

    اس طرح آہ کل ہم اس انجمن سے نکلے

    اس طرح آہ کل ہم اس انجمن سے نکلے فصل بہار میں جوں بلبل چمن سے نکلے آتی لپٹ ہے جیسی اس زلف عنبریں سے کیا تاب ہے جو وہ بو مشک ختن سے نکلے تم کو نہ ایک پر بھی رحم آہ شب کو آیا کیا کیا ہی آہ و نالے اپنے دہن سے نکلے اب ہے دعا یہ اپنی ہر شام ہر سحر کو یا وہ بدن سے لپٹے یا جان تن سے نکلے تو ...

    مزید پڑھیے

    یوں جو ڈھونڈو تو یہاں شہر میں عنقا نکلے

    یوں جو ڈھونڈو تو یہاں شہر میں عنقا نکلے چاہنے والا جو چاہو تو نا اصلا نکلے جی میں ہے چیر کے سینہ میں نکالوں دل کو تا کسی ڈھب سے تو پہلو کا یہ کانٹا نکلے مرض عشق یہ مہلک ہے کہ اس کے ڈر سے چرخ چارم یہ جو ڈھونڈو تو مسیحا نکلے ہے یقیں گور پہ گر میری تو آ جاوے کبھی دید کو تیری مرا قبر ...

    مزید پڑھیے

    کروں شکوہ نہ کیوں چرخ کہن سے

    کروں شکوہ نہ کیوں چرخ کہن سے کہ فرقت ڈالی تجھ سے گل بدن سے تری فرقت کا یہ صدمہ پڑا یار زباں ناآشنا ہو گئی سخن سے دم تکفین بھی گر یار آوے تو نکلیں ہاتھ باہر یہ کفن سے کھلا ہے تختۂ لالہ جگر میں ہمیں کیا کام اب سیر چمن سے نہ پہنچا گوش تک اک تیرے ہیہات ہزاروں نالہ نکلا اس دہن ...

    مزید پڑھیے

    کیا غضب ہے کہ چار آنکھوں میں

    کیا غضب ہے کہ چار آنکھوں میں دل چراتا ہے یار آنکھوں میں چشم کیفی کے سرخ ڈوروں سے چھا رہی ہے بہار آنکھوں میں گر پڑا طفل اشک یہ مچلا میں نے روکا ہزار آنکھوں میں نہیں اٹھتی پلک نزاکت سے سرمہ ہوتا ہے بار آنکھوں میں اتنی چھانی ہے خاک تیرے لیے چھا رہا ہے غبار آنکھوں میں جب سے اپنا ...

    مزید پڑھیے

تمام