Raghunath Sahai

رگھوناتھ سہائے

  • 1914

رگھوناتھ سہائے کی غزل

    یہ نہ پوچھو تم خدارا کہ مرا مکاں کہاں ہے

    یہ نہ پوچھو تم خدارا کہ مرا مکاں کہاں ہے جسے آگ دی ہے تم نے وہی میرا آشیاں ہے تمہیں کیا سناؤں اب میں غم عشق کا فسانہ وہی قصۂ علم ہے وہی غم کی داستاں ہے مجھے روشنی ملے گی رہ زیست میں اسی سے ترا نقش پا ہے جاناں کہ چراغ کارواں ہے مری ہر نشاط و غم کو تری ذات سے ہے نسبت تو جو آئے تو ...

    مزید پڑھیے

    رقص کرتے مستیوں کے سینکڑوں عالم گئے

    رقص کرتے مستیوں کے سینکڑوں عالم گئے محفل جم بن گئی جس انجمن میں ہم گئے ہر الم سے ہر بلا سے مل گئی دل کو نجات جب سے تیرا غم ملا ہے اپنے سارے غم گئے آ گئی کیا جانئے پھر کس مسیحا دم کی یاد درد پیہم رک گیا اشک مسلسل تھم گئے چھا گئیں رندان محفل پر بلا کی مستیاں بزم میں جس سمت چھلکاتے ...

    مزید پڑھیے

    رموز غم سے بیگانے خوشی کا راز کیا جانیں

    رموز غم سے بیگانے خوشی کا راز کیا جانیں قضا سے ڈرنے والے زندگی کا راز کیا جانیں کھلا جن پر نہ راز‌ گریۂ شبنم گلستاں میں وہ ناداں غنچہ و گل کی ہنسی کا راز کیا جانیں ہنسی آتی ہے ہم کو حضرت واعظ کی باتوں پر جو خود میکش نہیں وہ مے کشی کا راز کیا جانیں جو ہو کے رہ گئے غم روز روشن کے ...

    مزید پڑھیے

    کدھر رواں ہے مرا کارواں نہیں معلوم

    کدھر رواں ہے مرا کارواں نہیں معلوم نصیب لے کے چلا ہے کہاں نہیں معلوم ہمارا خرمن دل بھی تو جل چکا یا رب گرے گی اب کہاں برق تپاں نہیں معلوم بس اک نگاہ محبت سے ان کو دیکھا تھا ہیں مجھ سے کس لئے وہ بد گماں نہیں معلوم بنے ہیں آج وہی منتظم گلستاں کے کہ جن کو فرق بہار و خزاں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    پھولوں سے چھپ سکا ہے کہیں گلستاں کا حال

    پھولوں سے چھپ سکا ہے کہیں گلستاں کا حال ہم جانتے ہیں آج ہے جو اس جہاں کا حال نظروں میں دار و گیر کا عالم ہے آج بھی کس دل سے ہم بتائیں تمہیں کارواں کا حال بجلی کی زد میں آ گیا فصل بہار میں المختصر یہی ہے میرے آشیاں کا حال نقشہ کسی کی بزم کا آنکھوں میں پھر گیا واعظ نے آج چھیڑا جو ...

    مزید پڑھیے

    غافل تری نظر ہی سے پردہ اٹھا نہ تھا

    غافل تری نظر ہی سے پردہ اٹھا نہ تھا ورنہ وہ کس مقام پہ جلوہ نما نہ تھا روشن چراغ عشق نے کی منزل حیات ورنہ وہ تیرگی تھی کہ کچھ سوجھتا نہ تھا مقصود ایک تیرے ہی در کی تھی جستجو دیر و حرم سے مجھ کو کوئی واسطہ نہ تھا آواز دے رہے تھے جسے بے خودی میں ہم دیکھا تو وہ ہمیں تھے کوئی دوسرا نہ ...

    مزید پڑھیے

    آج پھر ساقیٔ گلفام سے باتیں ہوں گی

    آج پھر ساقیٔ گلفام سے باتیں ہوں گی مے گساروں کی مئے و جام سے باتیں ہوں گی پھر ترے عارض و گیسو کے نظارے ہوں گے پھر نئی صبح نئی شام سے باتیں ہوں گی ہو چکیں عیش و مسرت سے بہت کچھ باتیں ہوں گی اب تو غم و آلام سے باتیں ہوں گی عمر بھر کھائیں گے ہم وعدۂ فردا کا فریب عمر بھر حسرت ناکام سے ...

    مزید پڑھیے

    جب نہ شیشہ ہے نہ ساغر ہے نہ پیمانہ مرا

    جب نہ شیشہ ہے نہ ساغر ہے نہ پیمانہ مرا کس طرح کہہ دوں یہ مے خانہ ہے مے خانہ مرا چھپ سکے گا باغ میں کیوں کر مری وحشت کا حال پتے پتے کی زباں کہتی ہے افسانہ مرا ہیں مکیں اب بھی دل محزوں میں لاکھوں حسرتیں خیر سے ہے آج بھی آباد ویرانہ مرا ہو بھلا کیوں کر عیاں میری حقیقت آپ پر آپ اکثر ...

    مزید پڑھیے

    کیسے کہوں سفینے کو سیلاب لے گیا

    کیسے کہوں سفینے کو سیلاب لے گیا میرا نصیب تھا جو تہہ آب لے گیا اک جان آرزو کی تمنائے دید میں جانے کہاں کہاں دل بیتاب لے گیا ماتم کناں ہے شاخ فضائے چمن اداس یہ کون توڑ کر گل شاداب لے گیا گویا متاع دل ہی تھی میری متاع زیست دل لے کے کوئی زیست کے اسباب لے گیا صورت دکھا کے خواب میں ...

    مزید پڑھیے