Raees Faraz

رئیس فراز

رئیس فراز کی غزل

    ہاتھ سے آخر چھوٹ پڑا پتھر جو اٹھایا تھا

    ہاتھ سے آخر چھوٹ پڑا پتھر جو اٹھایا تھا کیا کرتا مجرم بھی تو خود اپنا سایا تھا ایسا ہوتا کاش کہیں کچھ رنگ بھی مل جاتے اس نے میرے خوابوں کا خاکہ تو بنایا تھا اب تو بھی باہر آ جا یوں جسم میں چھپنا کیا پردہ ہی کرنا تھا تو کیوں مجھ کو بلایا تھا آج کے موسم سے بے سدھ کچھ لوگ کفن ...

    مزید پڑھیے

    پکار لیں گے اس کو اتنا آسرا تو چاہئے

    پکار لیں گے اس کو اتنا آسرا تو چاہئے دعا خلاف وضع ہے مگر خدا تو چاہئے بجا کہ میں نے زندگی سے کھائے ہیں بہت فریب مگر فریب کھانے کو بھی حوصلہ تو چاہئے میں اپنے عکس کی تلاش کس کے چہرے میں کروں مجھے بھی زیست نام کا اک آئنا تو چاہئے نہ اس کے پاس وقت ہے نہ مجھ کو فرصت نظر جنوں کے واسطے ...

    مزید پڑھیے

    اجلے پروں میں کون چھپا ہے پتا نہیں

    اجلے پروں میں کون چھپا ہے پتا نہیں ماتھے پہ تو کسی کے فریبی لکھا نہیں گلیوں میں کوئی آ کے پھر اک بار چیخ جائے مدت سے سارے شہر میں کوئی صدا نہیں کجلا گیا ہے کتنے ہی قدموں تلے مگر یہ راستہ عجیب ہے کچھ بولتا نہیں بھٹکا کیا میں زرد حقارت کے شہر میں نیلی حدوں کے پار وہ لیکن ملا ...

    مزید پڑھیے

    تم کہہ رہے ہو نیلے خلا میں رنگوں کا جال پھیلا ہے

    تم کہہ رہے ہو نیلے خلا میں رنگوں کا جال پھیلا ہے میں پوچھتا ہوں رنگوں کے پار پانی کا رنگ کیسا ہے مجرم ہے دل کہ معمولی آہٹوں پر بھی چونک اٹھتا ہے کمرے میں ورنہ کوئی نہیں یہ پاگل ہوا کا جھونکا ہے میں سخت راستوں پر چلا ہوں میرے نشاں نہ ڈھونڈو تم پتھر پہ خود ہی چل کر بتاؤ کیا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    اتنے چہرے ہیں سبھی پر پیار روشن ہے

    اتنے چہرے ہیں سبھی پر پیار روشن ہے کیا خبر چہروں کے پیچھے کون دشمن ہے دور تک پہنچا کے ہم اپنی صدا خوش ہیں ورنہ سمجھیں تو یہ اپنا کھوکھلا پن ہے لوگ تنکے ادھ جلے سگریٹ کے ٹکڑے اپنی دنیا راکھ اور تنکوں کا برتن ہے کر رکھے تھے بند اس پر میں نے دروازے گھر میں اب کتنی گھٹن ہے کتنی سیلن ...

    مزید پڑھیے