ہاتھ سے آخر چھوٹ پڑا پتھر جو اٹھایا تھا
ہاتھ سے آخر چھوٹ پڑا پتھر جو اٹھایا تھا کیا کرتا مجرم بھی تو خود اپنا سایا تھا ایسا ہوتا کاش کہیں کچھ رنگ بھی مل جاتے اس نے میرے خوابوں کا خاکہ تو بنایا تھا اب تو بھی باہر آ جا یوں جسم میں چھپنا کیا پردہ ہی کرنا تھا تو کیوں مجھ کو بلایا تھا آج کے موسم سے بے سدھ کچھ لوگ کفن ...