راز لائلپوری کی غزل

    مدہوشیوں سے کام لیا ہے کبھی کبھی

    مدہوشیوں سے کام لیا ہے کبھی کبھی ہاتھ ان کا ہم نے تھام لیا ہے کبھی کبھی مے کش بھلا سکیں گے نہ ساقی کا یہ کرم گرتوں کو اس نے تھام لیا ہے کبھی کبھی ساقی نے جو پلائی ہماری ہی تھی خرید ہم سے بھی اس نے دام لیا ہے کبھی کبھی کیا بات ہے کہ ترک تعلق کے باوجود ہم نے تمہارا نام لیا ہے کبھی ...

    مزید پڑھیے

    یہی اک بات ساقی کو بتانے کی ضرورت ہے

    یہی اک بات ساقی کو بتانے کی ضرورت ہے ہمارے قرب میں اک بادہ خانے کی ضرورت ہے کہاں جائیں ترے مستانے اے ساقی کہاں جائیں ترے ہی سائے میں مستوں کو آنے کی ضرورت ہے خدا کے سامنے سر کو اٹھانے سے ہے کیا حاصل خدا کے سامنے سر کو جھکانے کی ضرورت ہے گھٹائیں گھر کے آئی ہیں سر مے خانہ اے ...

    مزید پڑھیے

    تیرا کیا جاتا جو ملتا جام ریحانی مجھے

    تیرا کیا جاتا جو ملتا جام ریحانی مجھے مے کے بدلے ساقیا تو نے دیا پانی مجھے مے گساری میں وہ اب پہلی سی کیفیت نہیں دے دیا ساقی نے کیا بے کیف سا پانی مجھے اب کسی مشروب سے دل چین پا سکتا نہیں کاش وہ آ کے پلا دے تیغ کا پانی مجھے دے دیا ساقی نے بھر کر مجھ کو بھی جام شراب میں تو کہتا ہی ...

    مزید پڑھیے

    مانا کہ تری بزم میں چاند آئے ہوئے ہیں

    مانا کہ تری بزم میں چاند آئے ہوئے ہیں لیکن وہ ترے سامنے گہنائے ہوئے ہیں جو ہم سے نہ ملنے کی قسم کھائے ہوئے ہیں شاید وہی اغیار کے بہکائے ہوئے ہیں مہتاب کے حالات بھی دیکھیں تو کبھی وہ اس حسن دو روزہ پہ جو اترائے ہوئے ہیں کہہ دو انہیں آ کر مری جنت میں وہ بس جائیں جنت سے نکالے ہوئے ...

    مزید پڑھیے