مدہوشیوں سے کام لیا ہے کبھی کبھی
مدہوشیوں سے کام لیا ہے کبھی کبھی ہاتھ ان کا ہم نے تھام لیا ہے کبھی کبھی مے کش بھلا سکیں گے نہ ساقی کا یہ کرم گرتوں کو اس نے تھام لیا ہے کبھی کبھی ساقی نے جو پلائی ہماری ہی تھی خرید ہم سے بھی اس نے دام لیا ہے کبھی کبھی کیا بات ہے کہ ترک تعلق کے باوجود ہم نے تمہارا نام لیا ہے کبھی ...