Prem Bhandari

پریم بھنڈاری

  • 1949

پریم بھنڈاری کے تمام مواد

18 غزل (Ghazal)

    بستی میں قتل عام کی کوشش نہ بن سکا

    بستی میں قتل عام کی کوشش نہ بن سکا میں قاتلوں کے ذہن کی سازش نہ بن سکا کوئی کمی نہ اس میں تھی شاید اسی لیے وہ شخص میرے واسطے خواہش نہ بن سکا میں رک نہیں سکا تو مری بے بسی تھی یہ بادل تھا اس کے صحن میں بارش نہ بن سکا جس پر تمام عمر بہت ناز تھا مجھے میرا وہ علم میری سفارش نہ بن ...

    مزید پڑھیے

    ایک مدت سے اسے ہم نے جدا رکھا ہے

    ایک مدت سے اسے ہم نے جدا رکھا ہے یہ الگ بات ہے یادوں میں بسا رکھا ہے ہے خلا چاروں طرف اس کے تو ہم کیوں نہ کہیں کس نے اس دھرتی کو کاندھوں پہ اٹھا رکھا ہے جو سدا ساتھ رہے اور دکھائی بھی نہ دے نام اس کا تو زمانے نے خدا رکھا ہے مرے چہرے پہ اجالا ہے تو حیراں کیوں ہے ہم نے سپنے میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہے مرے دل کی یہ تصویر نظر میں رکھ لو

    ہے مرے دل کی یہ تصویر نظر میں رکھ لو ایک ٹوٹا ہوا ارمان ہوں گھر میں رکھ لو جانتا ہوں کہ ابھی ساتھ نہیں آ سکتا پر مری یاد تو سامان سفر میں رکھ لو یوں تو اڑنے کے لئے طاقت پرواز بھی ہے پھر بھی چاہو تو مرا حوصلہ پر میں رکھ لو یہ وہی گاؤں ہیں فصلیں جو اگاتے تھے کبھی بھوک لے آئی ہے ان ...

    مزید پڑھیے

    بات کیسی بھی ہو انداز نیا دیتا تھا

    بات کیسی بھی ہو انداز نیا دیتا تھا ایسے ہنستا تھا کہ وہ سب کو رلا دیتا تھا کوئی مایوس جو ملتا تو نہ رہتا بے آس رنگ چہرے پہ تبسم کا سجا دیتا تھا عمر بھر ریت پہ چلتا رہا لیکن وہ شخص تپتی راہوں پہ ہری گھاس بچھا دیتا تھا کوئی انجام محبت کی جو باتیں کرتا پھول کے چہرے پہ شبنم وہ دکھا ...

    مزید پڑھیے

    ہنستے ہنستے وہ جو رویا

    ہنستے ہنستے وہ جو رویا کوئی دیوانہ تھا گویا دل کے دکھ سے دیکھو میں نے آنکھوں کا یہ آنگن دھویا آنسو پائے حیرت کیوں ہے وہ کاٹا ہے جو تھا بویا برس لگے پانے میں جس کو اک لمحہ میں اس کو کھویا ساری ساری رات میں جاگا وہ میری آنکھوں میں سویا

    مزید پڑھیے

تمام