Parkash Tiwari

پرکاش تیواری

پرکاش تیواری کی غزل

    گھر سلگتا سا ہے اور جلتا ہوا سا شہر ہے

    گھر سلگتا سا ہے اور جلتا ہوا سا شہر ہے زندگانی کے لیے اب دو جہاں کا قہر ہے جاؤ لیکن سرخ شعلوں کے سوا پاؤ گے کیا سنسناتے دشت میں کالی ہوا کا قہر ہے دل یہ کیا جانے کہ کیا شے ہے حرارت خون کی جسم کیا سمجھے کہ کیسی زندگی کی لہر ہے اے محبت میں تری بیتابیوں کو کیا کروں بڑھ کے چشم یار سے ...

    مزید پڑھیے

    غموں کے اندھیروں میں غرقاب ہوں میں

    غموں کے اندھیروں میں غرقاب ہوں میں اماوس کا بکھرا ہوا خواب ہوں میں مرے نام سے ہے زمانے کو نفرت کہ پیالے میں ہستی کے زہراب ہوں میں جمی ہے امیدوں پہ حرماں کی کائی کہ صحرا کا اک خشک تالاب ہوں میں قلم بند ہیں جس میں روحوں کے قصے کتاب زمانہ کا وہ باب ہوں میں پڑا ہے جو کھائی میں ...

    مزید پڑھیے

    زرد موسم کی مصیبت جاگی

    زرد موسم کی مصیبت جاگی پتے ٹوٹے تو حقیقت جاگی درد ساتھ اپنے دوا بھی لایا زخم نکلے تو جراحت جاگی چاک دامن ہوا تو ہوش آیا جب اڑے ہوش بصیرت جاگی اینٹ پتھر کے علاوہ کیا تھا جل گیا گھر تو صداقت جاگی چاند نکلا تو مرے پہلو میں تیری خوابیدہ محبت جاگی جھلملانے لگے پلکوں پہ چراغ دل ...

    مزید پڑھیے