Pankaj Sarhadi

پنکج سرحدی

پنکج سرحدی کی غزل

    کوئی فکر نہ کوئی غم ہے

    کوئی فکر نہ کوئی غم ہے میرے ساتھ مرا ہمدم ہے اس کے تکلم میں ہے ترنم اور ترنم میں سرگم ہے آگ لگا دے آگ بجھا دے وہ شعلہ ہے وہ شبنم ہے ابھی کہاں سلجھے ہیں مسائل ابھی تری زلفوں میں خم ہے لوگ جسے کہتے ہیں منزل وہ بھی قید بیش و کم ہے مل جائے تسکین جہاں پر پنکجؔ وہ ہی رشک ارم ہے

    مزید پڑھیے

    ادھر مے کدہ ہے ادھر بت کدہ ہے

    ادھر مے کدہ ہے ادھر بت کدہ ہے ادھر میرا ساقی ادھر دل ربا ہے ادھر ہے مری تشنگی کا مداوا ادھر میرے درد جگر کی دوا ہے ادھر جوش صہبا ادھر جوش الفت ادھر ابتدا ہے ادھر انتہا ہے ادھر دختر رز کی ہے کافر جوانی ادھر حسن محبوب صدق و صفا ہے ادھر مے پلا کر گرانے کا شیوہ ادھر تھام لینے کو ...

    مزید پڑھیے

    بھینی بھینی درد کی خوشبو لٹانے کے لیے

    بھینی بھینی درد کی خوشبو لٹانے کے لیے پھول کھلتے ہیں چمن میں مسکرانے کے لیے ہر گل تہذیب کو حق ہے کہ وہ کھلتا رہے اس ریاض دہر میں خوشبو لٹانے کے لیے یوں سمٹنا بھی ہے کوئی زندگی اے دوستو زندگی ہے وسعت عالم پہ چھانے کے لیے کچھ فریب رنگ و بو میں آ ہی جاتا ہے بشر ورنہ یہ دنیا نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے