Osama Zakir

اسامہ ذاکر

اسامہ ذاکر کی غزل

    اسی کے قدموں سے ایک چہرہ نکالنا ہے

    اسی کے قدموں سے ایک چہرہ نکالنا ہے گرے شجر سے ہوا کا شجرہ نکالنا ہے میں دیر سے ایک در پہ خالی کھڑا ہوا ہوں کسی کی مصروفیت میں وقفہ نکالنا ہے مجھے پہاڑوں کو کھودتے دیکھ کیا رہے ہو کہیں پہنچنا نہیں ہے رستہ نکالنا ہے بڑے بڑوں سے اکڑ کے ملتا ہوں آج کل میں مجھے خداؤں میں ایک بندہ ...

    مزید پڑھیے

    میں رات سست عناصر سے تنگ آ گیا تھا

    میں رات سست عناصر سے تنگ آ گیا تھا مری حیات فسردہ میں رنگ آ گیا تھا نگاڑے پیٹے ہواؤں نے سرخ پہروں تک گدھوں کا جھنڈ کبوتر کے سنگ آ گیا تھا ستار بجنے لگے صبح کی مسہری پر دھنک کا قافلۂ ہفت رنگ آ گیا تھا فلک پہ رینگتے سورج زمین بوس ہوئے وہ شہسوار شفق بہر جنگ آ گیا تھا اندھیرے غار ...

    مزید پڑھیے

    جب آفتاب سمندر میں جا گراتا ہوں

    جب آفتاب سمندر میں جا گراتا ہوں تب اپنے آپ سے باہر نکل کے آتا ہوں حسین خوابوں کو سارے ہرے پرندوں کو جھلستی ذات کے صحرا میں چھوڑ آتا ہوں جو ٹوٹتا ہے اجالوں کے شہر میں تارا میں جگنوؤں کے لئے آشیاں بناتا ہوں یہ میں نہیں ہوں یہ تیری نظر کا دھوکہ ہے تو کون ہوں میں کسی کو نہیں بتاتا ...

    مزید پڑھیے

    کتنے گرداب کھو گئے مجھ میں

    کتنے گرداب کھو گئے مجھ میں میرے سب خواب کھو گئے مجھ میں سادگی میری ڈھونڈ لائی تمہیں تم تھے چالاک کھو گئے مجھ میں ان کے ہونے سے میرا ہونا ہے لفظ لولاک ہو گئے مجھ میں روز ڈھلتے ہیں حرف و صوت کے ظرف کس کے غم چاک ہو گئے مجھے میں بے جھجک مجھ میں ہو گئے ہو دراز تم تو بے باک ہو گئے مجھ ...

    مزید پڑھیے

    رات تصویر نمودار ہوئی آنکھوں میں

    رات تصویر نمودار ہوئی آنکھوں میں صبح کے سامنے دیوار ہوئی آنکھوں میں مطلع دل پہ پھر اک چاند پگھل جائے گا آج اک تیز چمک خار ہوئی آنکھوں میں آ تجھے لال کروں زرد رخی بنت خزاں سرخ سیلاب کی یلغار ہوئی آنکھوں میں

    مزید پڑھیے

    منظر کا احسان اتارا جا سکتا ہے

    منظر کا احسان اتارا جا سکتا ہے آنکھ کو یارا بھوکا مارا جا سکتا ہے آنگن آنگن آگ اگائی جا سکتی ہے کمروں میں دریا کا کنارا جا سکتا ہے کرچی کرچی خواب چمکتا ہے آنکھوں میں ان سے اب دنیا کو سنوارا جا سکتا ہے بوندوں میں آئنے گھولے جا سکتے ہیں چادر تن میں سفر گزارا جا سکتا ہے جسم و دل ...

    مزید پڑھیے

    وینٹیلیٹر جسم کو نقلی سانسوں سے بھرتا تھا

    وینٹیلیٹر جسم کو نقلی سانسوں سے بھرتا تھا میں زندہ تھا اخراجات کے بوجھ تلے مرتا تھا ٹیڑھے میڑھے آلے لے کے جسم پہ ٹوٹ پڑے ہیں شاید جان گئے ہیں حسن کی میں پوجا کرتا تھا ہیلی‌ کاپٹر دھیرے دھیرے اٹھا زمیں تھرائی میرے دل کی یہ حالت تو اسٹیشن کرتا تھا سڑک پہ پیلے پیلے بیریر سب کا ...

    مزید پڑھیے

    سوکھ جاتی ہے مری چشم رواں بارش میں

    سوکھ جاتی ہے مری چشم رواں بارش میں آسماں ہوتا رہے اشک‌ فشاں بارش میں سارے صحرائی رہائی کے تمنائی نہ تھے آ گیا لے کے ہمیں قیس کہاں بارش میں گھونسلے ٹوٹ گئے پیڑ گرے باندھ گرے گاؤں پہ پھر بھی جواں نشۂ جاں بارش میں تیری سرسبز بہاروں پہ دمکتے قطرے لوح محفوظ کے کچھ رمز نہاں بارش ...

    مزید پڑھیے