Obaidullah Siddiqui

عبید اللہ صدیقی

عبید اللہ صدیقی کی غزل

    اس شہر تشنگی میں کہیں آب کے سوا

    اس شہر تشنگی میں کہیں آب کے سوا کچھ بھی نظر نہ آیا مجھے خواب کے سوا پھر کس کے کام آئے گی میری شناوری دریا میں کچھ نہ ہوگا جو گرداب کے سوا اس روشنی میں جس سے منور ہے کائنات سب کچھ دکھائی دیتا ہے مہتاب کے سوا باغ جہاں کی سیر میں اب کیا بتاؤں میں کیا کیا مجھے ملا گل شاداب کے سوا یہ ...

    مزید پڑھیے

    پہلے چنگاری سے اک شعلہ بناتا ہے مجھے

    پہلے چنگاری سے اک شعلہ بناتا ہے مجھے پھر وہی تیز ہواؤں سے ڈراتا ہے مجھے بین کرتے ہوئے اس رات کے سناٹے میں دشت سے گھر کی طرف کون بلاتا ہے مجھے گرد ہوتے ہوئے چہرے سے ملانے کے لیے آئنہ خانے میں کوئی لئے جاتا ہے مجھے شام ہوتی ہے تو میرا ہی فسانہ اکثر وہ جو ٹوٹا ہوا تارا ہے سناتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی اک خواب ہے یہ خواب کی تعبیر ہے

    زندگی اک خواب ہے یہ خواب کی تعبیر ہے حلقۂ گیسوئے دنیا پاؤں کی زنجیر ہے کچھ نہیں اس کے سوا میرے تصرف میں یہاں دل کا بس جتنا علاقہ درد کی جاگیر ہے پتلیاں آنکھوں کی ساکت ہو گئیں پڑھتے ہوئے آسماں پر کس زباں میں جانے کیا تحریر ہے مجھ کو گویائی پہ اکسایا تھا دل نے ایک بار آج تک ...

    مزید پڑھیے