Nusrat Lakhnavi

نصرت لکھنوی

نصرت لکھنوی کی غزل

    ہوس کسی کو ہو دیکھنے کی جو موج بے انتہائے دریا

    ہوس کسی کو ہو دیکھنے کی جو موج بے انتہائے دریا تو آ کے چشموں کو دیکھے میری کہ یاں سے ہے ابتدائے دریا حباب ان کو نہ سمجھو یارو یہ اٹھتے پانی میں ہیں جو ہر دم بدن کھلا جو کسی کا دیکھا کھلے ہیں یہ دیدہ‌ ہائے دریا دورن‌ گرداب اب جو جا کر پھنسی ہے کشتی ہماری یا رب سرکش یاس اب بھی ہے ...

    مزید پڑھیے