Noor Taqi Noor

نور تقی نور

  • 1919

نور تقی نور کی غزل

    شاید کوئی نگاہ کرے میری ذات پر

    شاید کوئی نگاہ کرے میری ذات پر دستک تو دے رہا ہوں در کائنات پر دشمن سے کہہ رہا ہوں تری انجمن کا راز یا پھول رکھ رہا ہوں میں شعلے کے ہات پر اپنا بھی قتل ہم نے کئی ڈھنگ سے کیا اب کوئی چونکتا ہی نہیں حادثات پر بے ہوشیوں کو نیند سے نسبت ضرور ہے کچھ خار بھی بچھا لے ردائے حیات پر اے ...

    مزید پڑھیے

    خوف کی ایسی نہ بیماری لگے

    خوف کی ایسی نہ بیماری لگے سچ وہ بولے تو اداکاری لگے صاحبوں سے ہر اجازت لو مگر مسکرانا بھی نہ سرکاری لگے سب میاں حالات پر موقوف ہے پھول بھی تلوار سے بھاری لگے اے فرشتو سر نہ ڈھلکانا مرا موت بھی آئے تو سرداری لگے بھاڑ میں جائے یہ تہذیب کلام بات کہنے میں بھی دشواری لگے وہ غزل ...

    مزید پڑھیے

    سونے کے لب چاندی کے چہروں میں جڑے ہیں

    سونے کے لب چاندی کے چہروں میں جڑے ہیں ان سے بات نہ کرنا تم یہ لوگ بڑے ہیں طوفانوں میں چلنا تو مشکل ہے لیکن یہ ہمت بھی کیا کم ہے کچھ لوگ کھڑے ہیں یہ اب کیا ڈھونڈ رہے ہو ان خالی آنکھوں میں یہ گوشے تو برسوں سے ویران پڑے ہیں کیسی کیسی انہونی باتیں ہوتی ہیں کیسے کیسے دنیا نے الزام ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے مل جانے کے امکاں ہوئے کیسے کیسے

    تجھ سے مل جانے کے امکاں ہوئے کیسے کیسے خواب ہی میں سہی ساماں ہوئے کیسے کیسے لوگ یہ سوچ کے ہو جائیں نہ حالات خراب عالم عیش میں حیراں ہوئے کیسے کیسے لفظ بوڑھے ہوں تو پیغام کوئی کیا بھیجے ہم صبا سے بھی پشیماں ہوئے کیسے کیسے کوئی جلوہ ہے نہ چہرہ نہ تجلی نہ کرن آئنے بے سر و ساماں ...

    مزید پڑھیے

    تہجد میں وہ رنگ و بو رات بھر

    تہجد میں وہ رنگ و بو رات بھر خدا سے رہی گفتگو رات بھر جو خوابوں میں لہرائے پھولوں کے جام مہکتے رہے بے سبو رات بھر ہوا جو سر شام دل پاش پاش کیا تار غم سے رفو رات بھر وہ تنہائی کا خوبصورت ہجوم وہ میلہ سر آب جو رات بھر چمکتے رہے آنسوؤں کے چراغ کیا یاد انہیں با وضو رات بھر یہ کمرے ...

    مزید پڑھیے