Noor Mohammad Yaas

نور محمد یاس

نور محمد یاس کی غزل

    سوچتی آنکھیں مجھے دیں کس نے آخر کون تھا

    سوچتی آنکھیں مجھے دیں کس نے آخر کون تھا میں نے تو دیکھا نہیں میرا مصور کون تھا سب اگر محصور تھے خود میں تو کس کا تھا حصار سب اگر مجبور تھے خود سے تو جابر کون تھا میری آنکھوں کے علاوہ کس نے دیکھا تھا مجھے اپنے باطن سے زیادہ مجھ پہ ظاہر کون تھا ہو نہ ہو تو نے ہی کاٹی ہے زبان جہل ...

    مزید پڑھیے

    یہ طائروں نے جو اک دوسرے کے نام لیے

    یہ طائروں نے جو اک دوسرے کے نام لیے ضرور دشت میں آیا ہے کوئی دام لیے نہ ہو مزاج میں ایسی بھی دوراندیشی کہ صبح سے کوئی نکلے چراغ شام لیے کوئی اشارہ نہ ہو کوئی استعارہ نہ ہو تم اس کا تذکرہ کرنا بغیر نام لیے دیار ذات میں احساس کی قلمرو میں فقیر ملتے ہیں شاہوں کا احتشام لیے سمیٹ ...

    مزید پڑھیے

    جب تمہیں دیکھا نہ تھا آنکھوں میں کتنے سائے تھے

    جب تمہیں دیکھا نہ تھا آنکھوں میں کتنے سائے تھے میں اسی دن سے اکیلا ہوں کہ جب تم آئے تھے آگ بھڑکی جب تو میں یہ سوچتا ہی رہ گیا کاغذی کپڑے مجھے کس وہم نے پہنائے تھے جانے کس نے ہم کو سورج سے کیا تھا منحرف جانے کس نے دھوپ میں وہ آئینے چمکائے تھے آسمانوں سے ہوا تھا نور و نزہت کا ...

    مزید پڑھیے

    اٹھ چکا ہے پڑاؤ خوابوں کا

    اٹھ چکا ہے پڑاؤ خوابوں کا ہم ہیں اور سلسلہ سرابوں کا آگہی ہے صلیب جذبوں کی زندگی ہے سفر عذابوں کا فکر یہ ہے سکوں سے رات کٹے ذکر چلتا ہے انقلابوں کا شہر اپنا ہرا بھرا اک باغ چلتے پھرتے ہوئے گلابوں کا چاندنی کے سبھی چراغوں میں خون جلتا ہے آفتابوں کا خواہشوں کا غلام نکلا ...

    مزید پڑھیے

    رفاقتوں کا طلب گار بھی نہ ہوتا تھا

    رفاقتوں کا طلب گار بھی نہ ہوتا تھا مگر کسی سے وہ بے زار بھی نہ ہوتا تھا کل اس کے خواب تھے جو آج اپنی دنیا ہے فسانہ ساز فسوں کار بھی نہ ہوتا تھا سبک روی کی وہیں شرط بھی ٹھہرتی تھی جہاں سے راستہ ہموار بھی نہ ہوتا تھا مرے سرہانے اٹھاتی تھیں حشر تعبیریں ابھی میں خواب سے بیدار بھی نہ ...

    مزید پڑھیے

    یہاں الگ سے کوئی کب حصار میرا ہے

    یہاں الگ سے کوئی کب حصار میرا ہے مجھے سمیٹے ہوئے خود غبار میرا ہے نہ چھین پائے گا مجھ سے کوئی نقوش خیال یہ پھول میرے ہیں یہ شاخسار میرا ہے چلوں تو دھوپ کا بادل ہوں میں خود اپنی جگہ رکوں تو ہر شجر سایہ دار میرا ہے پڑھوں تو نامہ کسی کا ہے چہرہ چہرہ مجھے لکھوں تو خامہ حقیقت نگار ...

    مزید پڑھیے

    ہر ذہن روایات کا مقتل نہ ہوا تھا

    ہر ذہن روایات کا مقتل نہ ہوا تھا وہ آج ہوا ہے جو یہاں کل نہ ہوا تھا کیوں دوڑ پڑی خلق اس اک شخص کے پیچھے کیا شہر میں آگے کوئی پاگل نہ ہوا تھا تھے بند مکانوں کی طرح لوگ پراسرار اک باب سخن تھا جو مقفل نہ ہوا تھا دل خون کیا تم نے تو پانی ہوئے جذبے یہ مسئلہ مجھ سے تو کبھی حل نہ ہوا ...

    مزید پڑھیے