نثار ترابی کی غزل

    زیست کی آگہی کا حاصل ہے

    زیست کی آگہی کا حاصل ہے درد ہی شاعری کا حاصل ہے ہے خرد بھی خرد کے نرغے میں عشق خود گمرہی کا حاصل ہے زندگی کا ثبات ہے اس میں یہ جو آنسو ہنسی کا حاصل ہے یوں ترا پاس سے گزر جانا عمر کی بے رخی کا حاصل ہے پوچھتی ہے صبا گلستاں سے پھول کیوں تازگی کا حاصل ہے لوٹ لیتی ہے قافلے کیسے رات ...

    مزید پڑھیے

    نظر اٹھی ہے جدھر بھی ادھر تماشا ہے

    نظر اٹھی ہے جدھر بھی ادھر تماشا ہے بشر کے واسطے جیسے بشر تماشا ہے زمیں ٹھہرتی نہیں اپنے پاؤں کے نیچے پڑاؤ اپنا ہے جس میں وہ گھر تماشا ہے یہاں قیام کرے گا نہ مستقل کوئی ذرا سی دیر رکے گا اگر تماشا ہے فگار ہو کے بھی رکھے گا آبروئے نمو نگاہ زر میں جو دست ہنر تماشا ہے اے موسموں کے ...

    مزید پڑھیے

    ابر صحرائے جاں تلاش کرے

    ابر صحرائے جاں تلاش کرے پیاس اپنا جہاں تلاش کرے ہر عقیدت کی ایک منزل ہے ہر جبیں آستاں تلاش کرے اپنے محور پہ رہ نہیں سکتی جو زمیں آسماں تلاش کرے عشق ڈھونڈے کہانیاں اپنی حسن اپنا بیاں تلاش کرے کوئی تو راستوں پہ نکلے بھی کوئی تو کارواں تلاش کرے کیا حقیقت پہ چل گیا افسوں کیا ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کارواں کا حصہ ہے

    زندگی کارواں کا حصہ ہے ہجر کی داستاں کا حصہ ہے شکل بھی تو ہے عکس کی باندی نقش بھی تو نشاں کا حصہ ہے اپنا اپنا مقام ہوتا ہے ذرہ ذرہ جہاں کا حصہ ہے کس لیے مہرباں نہیں ہوتی کیا زمیں آسماں کا حصہ ہے کس لیے دے رہے ہو تاویلیں وہ جہاں ہے وہاں کا حصہ ہے پھر تو خانہ بدوشی بہتر ہے کہ جب ...

    مزید پڑھیے

    بدل بدل کے تری بے رخی نے دیکھا ہے

    بدل بدل کے تری بے رخی نے دیکھا ہے یہ حادثہ بھی مری بے بسی نے دیکھا ہے مجھے خبر ہے کہ ظلمت ٹھہر نہیں سکتی مجھے پتا ہے اسے روشنی نے دیکھا ہے مری غزل ہے سلگتے ہوؤں نے دیکھا ہے کہ میرا عکس مری شاعری نے دیکھا ہے میں جھوم جھوم گیا لے کے آسرا اس کا کہ میری سمت اچانک خوشی نے دیکھا ...

    مزید پڑھیے