زیست کی آگہی کا حاصل ہے
زیست کی آگہی کا حاصل ہے درد ہی شاعری کا حاصل ہے ہے خرد بھی خرد کے نرغے میں عشق خود گمرہی کا حاصل ہے زندگی کا ثبات ہے اس میں یہ جو آنسو ہنسی کا حاصل ہے یوں ترا پاس سے گزر جانا عمر کی بے رخی کا حاصل ہے پوچھتی ہے صبا گلستاں سے پھول کیوں تازگی کا حاصل ہے لوٹ لیتی ہے قافلے کیسے رات ...