صبحیں کرنیں تھا میں، پھر بھی شامیں پھر بھی رات
صبحیں کرنیں تھا میں، پھر بھی شامیں پھر بھی رات اک پردہ، پھر فردا ہے اور پھر آگے کی بات سوچیں تارے نوچیں اور جا پہنچیں کتنی دور دل ہے گہرا اک جا ٹھہرا کھوجے اپنی ذات اک چادر لفظوں کی بن کر چھپ چھپ بیٹھوں اوٹ پر آنکھیں اپنی ہانکیں اور کھلتی جائے بات گھاتیں اس کی ساری باتیں ...