Nazim Barelvi

ناظم بریلوی

ناظم بریلوی کی غزل

    اشک چشم بت بے جاں سے نکل سکتا ہے

    اشک چشم بت بے جاں سے نکل سکتا ہے آہ پر سوز سے پتھر بھی پگھل سکتا ہے اپنے انداز تکلم کو بدل دے ورنہ میرا لہجہ بھی ترے ساتھ بدل سکتا ہے لوگ کہتے تھے کہ پھلتا نہیں نفرت کا شجر ہم کو لگتا ہے کہ اس دور میں پھل سکتا ہے میرے سینے میں محبت کی تپش باقی ہے میری سانسوں سے ترا حسن پگھل سکتا ...

    مزید پڑھیے

    کیا ہے میرے دل کی حالت واقعی کیسے کہوں

    کیا ہے میرے دل کی حالت واقعی کیسے کہوں کیوں ہے میری آنکھ میں اتنی نمی کیسے کہوں میری اک اک سانس پہ حق ہے مرے اللہ کا میں بھلا اس زندگی کو آپ کی کیسے کہوں کون ہے میرا مخالف کس نے کی ہے مخبری جانتا ہوں میں بتاؤں گا ابھی کیسے کہوں شاعری تو واردات قلب کی روداد ہے قافیہ پیمائی کو میں ...

    مزید پڑھیے

    سنا دی کس نے روداد غم دل کوہساروں کو

    سنا دی کس نے روداد غم دل کوہساروں کو میں اکثر سوچتا ہوں دیکھ کر ان آبشاروں کو گئے موسم کا اک پیلا سا پتا شاخ پر رہ کر نہ جانے کیا بتانا چاہتا ہے ان بہاروں کو چلے آؤ نہ روکے گا غبار راہ اب تم کو کہ پر نم کر دیا اشکوں سے میں نے رہ گزاروں کو سمجھ پائے ہیں ان کو اور نہ سمجھیں گے خرد ...

    مزید پڑھیے