نظیر صدیقی کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    آنکھوں میں بے رخی نہیں دل میں کشیدگی نہیں

    آنکھوں میں بے رخی نہیں دل میں کشیدگی نہیں پھر بھی جو دیکھیے تو اب پہلی سی دوستی نہیں رسم وفا کا التزام عہد وفا کا احترام شیوۂ عاشقی تو ہے فطرت عاشقی نہیں ہم سے شکایتیں بجا ہم کو بھی ہے مگر گلہ پہلے سے ہم نہیں اگر پہلے سے آپ بھی نہیں بزم طرب میں دوستو دیکھ رہا ہوں میں یہی رقص ...

    مزید پڑھیے

    بدل گئی ہے کچھ ایسی ہوا زمانے کی

    بدل گئی ہے کچھ ایسی ہوا زمانے کی کہ عام ہو گئی عادت نظر چرانے کی یہ بات کاش سمجھتے سبھی چمن والے چمن لٹا تو نہیں خیر آشیانے کی انہیں خبر نہیں وہ خود بھی آزمائے گئے جنہیں تھی فکر بہت مجھ کو آزمانے کی کوئی کلی نہ رہی پھر بھی مسکرائے بغیر سزا اگرچہ مقرر تھی مسکرانے کی ہوا یہی کہ ...

    مزید پڑھیے

    خود فریبی نے بے شک سہارا دیا اور طبیعت بظاہر بہلتی رہی

    خود فریبی نے بے شک سہارا دیا اور طبیعت بظاہر بہلتی رہی ایک کانٹا سا دل میں کھٹکتا رہا ایک حسرت سی دل کو مسلتی رہی اپنے غم کو ہمیشہ بھلایا کئے کثرت کار میں سیر بازار میں الغرض کسمپرسی کے عالم میں بھی زندہ رہنے کی صورت نکلتی رہی عقل کی برتری دل نے مانی تو کیا اس نے چاہا کبھی عقل ...

    مزید پڑھیے

    لذت خواب دے گئے حسن خیال دے گئے

    لذت خواب دے گئے حسن خیال دے گئے ایک جھلک میں اتنا کچھ اہل جمال دے گئے آئے تو دل تھا باغ باغ اور گئے تو داغ داغ کتنی خوشی وہ لائے تھے کتنا ملال دے گئے دیدہ وروں کی راہ پر کون ہوا ہے گامزن وہ مگر اپنی ذات سے ایک مثال دے گئے اس سے زیادہ راہزن کرتے بھی مجھ پہ کیا ستم مال و منال لے گئے ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو انساں خدا کا ہے شہکار

    یہ جو انساں خدا کا ہے شہکار اس کی قسمت پہ ہے خدا کی مار مرگ دشمن کی آرزو ہی سہی دل سے نکلے کسی طرح تو غبار نام بدنام ہو چکا حضرت کیجیے اب تو جرم کا اقرار اتفاقی ہے دو دلوں کا ملاپ کون سنتا ہے ورنہ کس کی پکار جینا مرنا ہے بن پڑے کی بات نہ یہ آسان اور نہ وہ دشوار کس کو پروا کہ ان ...

    مزید پڑھیے

تمام