Nazar Javed

نذر جاوید

نذر جاوید کی غزل

    ہم یوں ہی بکھرے نہیں ہر سو خس و خاشاک میں

    ہم یوں ہی بکھرے نہیں ہر سو خس و خاشاک میں ہیں نمو بر دوش رنگ و بو خس و خاشاک میں اس کے ہونے کا گماں رہتا ہے میرے آس پاس ہر طرف رچ بس گئی خوشبو خس و خاشاک میں ہو ثمر آور ہماری آبلہ پائی کہیں چین آ جائے کسی پہلو خس و خاشاک میں چاہئے ہوتی ہے کشت زر کو جب بھی کچھ نمو میں بہا دیتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    وار ہر ایک مرے زخم کا حامل آیا

    وار ہر ایک مرے زخم کا حامل آیا اپنی تلوار کے میں خود ہی مقابل آیا بادبانوں نے ہر اک سمت بدل کر دیکھی کوئی منظر نہ نظر صورت ساحل آیا گرد ہونے نے ہی مہمیز کیا میرا سفر میرا رستہ مری دیوار میں حائل آیا اس فسوں کی کوئی توضیح نہیں ہو پاتی اس کے ہاتھوں میں بھلا کیسے مرا دل آیا درد سے ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہونے کی ارزانی ختم ہوئی

    اپنے ہونے کی ارزانی ختم ہوئی مشکل سے یہ تن آسانی ختم ہوئی تجھ کو کیا معلوم ہماری بینائی کیسے ہو کر پانی پانی ختم ہوئی بہتا ہے چپ چاپ بچھڑ کر چوٹی سے دریا کی پر شور روانی ختم ہوئی مٹی کی آواز سنی جب مٹی نے سانسوں کی سب کھینچا تانی ختم ہوئی دل پر سارے موسم بیت گئے جاویدؔ یعنی ...

    مزید پڑھیے

    پرانے عکس کر کے رد ہمارے

    پرانے عکس کر کے رد ہمارے بدل دیتا ہے خال و خد ہمارے طبیعت کے بہت آزاد تھے ہم رہی ٹھوکر میں ہر مسند ہمارے کھلی بانہوں سے ملتے تھے ہمیشہ مگر تھی درمیاں اک حد ہمارے ذرا سی دھوپ چمکے گی سروں پر پگھل جائیں گے موئے قد ہمارے

    مزید پڑھیے