Nawaz Asimi

نواز عصیمی

نواز عصیمی کی غزل

    تمام ابر پہاڑوں پہ سر پٹکتے رہے

    تمام ابر پہاڑوں پہ سر پٹکتے رہے غریب دہکاں کے آنسو مگر ٹپکتے رہے تمام موسم بارش اسی طرح گزرا چھتیں ٹپکتی رہیں اور مکیں سسکتے رہے نہارنے کے لیے جب نہ مل سکا منظر ہم اپنی سوختہ سامانیوں کو تکتے رہے مکان اشکوں کے سیلاب میں ٹھہر نہ سکے مکین پلکوں کی شاخیں پکڑ لٹکتے رہے وو ہم پہ ...

    مزید پڑھیے

    جنوں پے چھوڑ دی اب ساری زندگی میں نے

    جنوں پے چھوڑ دی اب ساری زندگی میں نے خرد کو آگ لگا دی ابھی ابھی میں نے فقیر شہر کے شجرے کو دیکھنے کے بعد امیر شہر کی دستار کھینچ لی میں نے ہوائیں اتنی خنک تھیں کے خون جمنے لگا تو تپتے سہرہ کی کچھ ریت اوڑھ لی میں نے طلسم ٹوٹا پرندے سے شاہزادی بنی جو سر میں کیل ٹھکی تھی نکال دی میں ...

    مزید پڑھیے

    نتیجہ دیکھیے کچھ دن میں کیا سے کیا نکل آیا

    نتیجہ دیکھیے کچھ دن میں کیا سے کیا نکل آیا کہیں پے بیج بویا تھا کہیں پودھا نکل آیا رقم ہے جس پہ میرے آبا و اجداد کا شجرہ مرے گھر کی کھدائی میں وہی کتبہ نکل آیا سنا ہے آج سب عریاں نظر آئیں گے سڑکوں پر میں اپنے گھر سے بن کر آج نا بینا نکل آیا کچھ ایسے زاویے سے آج سورج نے حکومت کی کے ...

    مزید پڑھیے

    مغالطہ ہے عروج و زوال تھوڑی ہے

    مغالطہ ہے عروج و زوال تھوڑی ہے ہماری آنکھ کے شیشہ میں بال تھوڑی ہے ہمارے دل میں کبوتر نماز پڑھتے ہیں ہمارے دل میں تعصب کا جال تھوڑی ہے لبادہ برف کا اوڑھے ہوئے ہے جوالا مکھی زمیں کے لاوے میں اب کے ابال تھوڑی ہے ہیں ہم حسینی ہمیں سر کٹانا آتا ہے ہمارے پاس یزیدانہ چال تھوڑی ...

    مزید پڑھیے

    تھا عجب سیمینار کا موسم تبصرے ہو رہے تھے ہر فن پر

    تھا عجب سیمینار کا موسم تبصرے ہو رہے تھے ہر فن پر شاعری پر سبھی کا قول تھا یے گرد کتنی جمی ہے درپن پر آج قسطوں میں دھوپ اتری ہے پر بڑے کر و فر سے اتری ہے آج سورج ہے ڈوبنے کو مگر دھوپ کے نقش پا ہیں آنگن پر آج بادل پھٹے ہیں آنکھوں میں آج سیلاب آنے والا ہے آج چہرے کے کوہ ٹوٹیں گے اور ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کے زور سے جب بادبان پھٹنے لگے

    ہوا کے زور سے جب بادبان پھٹنے لگے مسافر اپنے خداؤں کے نام رٹنے لگے ہمارے سینوں پے اب بھی بہت جگہ ہے جناب مگر تمہارے ہی ترکش میں تیر گھٹنے لگے یزید وقت ہوا جس گھڑی سے تخت نشیں ہمارے نام کے خنجر ہر اک میں بٹنے لگے مکان ہم نے بنا تو لیا کنارے پر نہ ایسا ہو کے کنارے کی ریت کٹنے ...

    مزید پڑھیے

    بظاہر تو تناور دکھ رہے ہیں

    بظاہر تو تناور دکھ رہے ہیں مگر یے پیڑ سارے کھوکھلے ہیں یہ کس شمع کی چاہت میں پتنگے برہنہ پاؤں سورج پر کھڑے ہیں غزل کتنی اپاہج ہو گئی ہے غزل کے دست و بازو کہہ رہے ہیں دراریں جسم کی کھلنے لگی ہیں لہو کے قطرے بر آمد ہوئے ہیں ہر اک جانب ہے تاریکی کا جنگل اجالے راستہ بھٹکے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    موم صفت لوگوں نے میرا ہنس کے تماشہ دیکھا تو

    موم صفت لوگوں نے میرا ہنس کے تماشہ دیکھا تو وہ پتھر تھا لیکن اوس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا تو الفاظوں نے معنی بدلے تحریروں نے رخ بدلا میرے قلم کی نوک سے جس دم خون کا چشمہ پھوٹا تو کہنے لگے سب آج سوا نیزے پر سورج آئے گا جس دن میں نے موم کا کرتا اپنے بدن پر پہنا تو قیمت دیکھتے دیکھتے ...

    مزید پڑھیے

    تہہ مزار کون ہے سر مزار کون تھا

    تہہ مزار کون ہے سر مزار کون تھا جو قبر گیلی کر گیا وو اشک بار کون تھا سبھی نے آشکار اپنے آپ کو کیا مگر نمائشوں کی آڑ میں وو پردہ دار کون تھا تمام شہر غرق ہے غبار ہی غبار میں امیر شہر یے بتا وو خاکسار کون تھا وو قوم ہی عجیب تھی تھے نیم برہنہ سبھی ندامتیں تھیں کس کے پاس شرمسار کون ...

    مزید پڑھیے

    ترے مسلک میں کیا اتنا بھی سمجھایا نہیں جاتا

    ترے مسلک میں کیا اتنا بھی سمجھایا نہیں جاتا فقیروں اور درویشوں سے ٹکرایا نہیں جاتا نئے جملے تلاشو واقعی گر تم مقرر ہو ہر اک تقریر میں جملوں کو دہرایا نہیں جاتا تری فرقت میں سارے جسم کو پتھرا دیا میں نے فقط آنکھیں بچی ہیں ان کو پتھرایا نہیں جاتا تو اپنے عہدۂ منصف سے منصف ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2