تمام ابر پہاڑوں پہ سر پٹکتے رہے
تمام ابر پہاڑوں پہ سر پٹکتے رہے غریب دہکاں کے آنسو مگر ٹپکتے رہے تمام موسم بارش اسی طرح گزرا چھتیں ٹپکتی رہیں اور مکیں سسکتے رہے نہارنے کے لیے جب نہ مل سکا منظر ہم اپنی سوختہ سامانیوں کو تکتے رہے مکان اشکوں کے سیلاب میں ٹھہر نہ سکے مکین پلکوں کی شاخیں پکڑ لٹکتے رہے وو ہم پہ ...