Naved Raza

نوید رضا

نوید رضا کی غزل

    جدا ہوئے تو جدائی میں یہ کمال بھی تھا

    جدا ہوئے تو جدائی میں یہ کمال بھی تھا کہ اس سے رابطہ ٹوٹا بھی تھا بحال بھی تھا وہ جانے والا ہمیں کس طرح بھلائے گا ہمارے پیش نظر ایک یہ سوال بھی تھا یہ اب جو دیکھ رہے ہو یہ کچھ نیا تو نہیں یہ زندگی کا تماشا گزشتہ سال بھی تھا یہ داغ لکھا تھا سیلاب کے مقدر میں مرا مکان تو پہلے سے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اس طرح سلا دیا گیا مجھے

    کچھ اس طرح سلا دیا گیا مجھے کہ جاگنا بھلا دیا گیا مجھے کوئی تو ہے جو اس کو یاد ہے بہت یہ کس طرح بھلا دیا گیا مجھے میں خود کو دوسروں سے کیا جدا کروں بہت ملا جلا دیا گیا مجھے نہ جانے یہ نمی کہاں سے آ گئی نہ جانے کب رلا دیا گیا مجھے وہ ایک در بھی پانیوں کے رخ پہ تھا جو ایک در کھلا ...

    مزید پڑھیے

    خواب میں تیری شکل سمو نہیں سکتا میں

    خواب میں تیری شکل سمو نہیں سکتا میں اسی لیے تو شاید سو نہیں سکتا میں میں تو اپنے آنسوؤں سے شرمندہ ہوں تیری آنکھ کے آنسو رو نہیں سکتا میں حد نظر تک ریت ہی ریت ہے آنکھوں میں اب اس ریت میں پھول تو بو نہیں سکتا میں میں بھی تیرے جیسا ہونا چاہتا ہوں لیکن اب دریا تو ہو نہیں سکتا ...

    مزید پڑھیے