Nasir Rao

ناصر راؤ

  • 1990

ناصر راؤ کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    تنہائیوں کی گود میں پل کر بڑا ہوا

    تنہائیوں کی گود میں پل کر بڑا ہوا بچپن سے اپنے آپ سنبھل کر بڑا ہوا غیروں کو اپنا مان کے جیتا رہا ہوں میں اس راہ پل صراط پہ چل کر بڑا ہوا میں نے کبھی بھی رات سے شکوہ نہیں کیا ہر شب کسی چراغ سا جل کر بڑا ہوا پتھر سے کوئی واسطہ مطلب نہ تھا مگر ہر آئنے کی آنکھ میں کھل کر بڑا ہوا مخمل ...

    مزید پڑھیے

    کہاں اور کب کب اکیلا رہا ہوں

    کہاں اور کب کب اکیلا رہا ہوں میں ہر روز ہر شب اکیلا رہا ہوں مجھے اپنے بارے میں کیا مشورہ ہو میں اپنے لئے کب اکیلا رہا ہوں اداسی کا عالم یہاں تک رہا ہے میں ہوتے ہوے سب اکیلا رہا ہوں یہاں سے وہاں تک ادھر سے ادھر تک میں پشچم سے پورب اکیلا رہا ہوں بہت حوصلہ مجھ کو میں نے دیا ہے میں ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے حق میں دعا کرے گا

    ہمارے حق میں دعا کرے گا وہ اک نہ اک دن وفا کرے گا بچھڑ گیا ہے مگر یقیں ہے کبھی کبھی وہ ملا کرے گا تو اپنے عاشق کو ساتھ رکھ لے بچھڑ گیا تو نشہ کرے گا جو اپنی حالت کا خود سبب ہو وہ کیا کسی سے گلا کرے گا اگر یہ دنیا اجڑ گئی تو کبھی یہ سوچا ہے کیا کرے گا میں جانتا ہوں کہ اک فرشتہ جو ...

    مزید پڑھیے

    چہرہ پہ کوئی رنگ شکایت کا نہیں تھا

    چہرہ پہ کوئی رنگ شکایت کا نہیں تھا لیکن وو تبسم ہی محبت کا نہیں تھا چھوڑا بھی مجھے اور بہت خوش بھی رہے ہو افسوس کے میں آپ کی عادت کا نہیں تھا وقتوں کے سیاہ رنگ سے ذروں پہ لکھا ہے دنیا میں کوئی دور شرافت کا نہیں تھا اب سر کو پٹکنے سے کوئی فیض نہیں ہے مرنے کا تقاضہ تھا وو ہجرت کا ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ میں آنسو نہیں شبنم نہیں کچھ غم نہیں

    آنکھ میں آنسو نہیں شبنم نہیں کچھ غم نہیں زخم ہیں جن پر کوئی مرہم نہیں کچھ غم نہیں درد وہ دے کر مسلسل حالت دل پوچھتے ہیں یے عنایت بھی تو ان کی کم نہیں کچھ غم نہیں رات کا پچھلا پہر ہے اور ہم خانہ بدوش کوئی در دیوار کا ماتم نہیں کچھ غم نہیں ہر طرف ہیں خون سے رنگین کپڑے اور تن یے ...

    مزید پڑھیے

تمام