Nasir Ali Syed

ناصر علی سید

  • 1948

ناصر علی سید کی غزل

    ایک انہونی کا ڈر ہے اور میں

    ایک انہونی کا ڈر ہے اور میں دشت کا اندھا سفر ہے اور میں حسرت تعمیر پوری یوں ہوئی حسرتوں کا اک نگر ہے اور میں بام و در کو نور سے نہلا گیا ایک اڑتی سی خبر ہے اور میں مشغلہ ٹھہرا ہے چہرے دیکھنا اس کے گھر کی رہ گزر ہے اور میں جب سے آنگن میں اٹھی دیوار ہے اس حویلی کا کھنڈر ہے اور ...

    مزید پڑھیے

    یہ اور بات کہ موجود اپنے گھر میں ہوں

    یہ اور بات کہ موجود اپنے گھر میں ہوں میں تیری سمت مگر مستقل سفر میں ہوں نہ جانے اگلی گھڑی کیا سے کیا میں بن جاؤں ابھی تو چاک پہ ہوں دست کوزہ گر میں ہوں میں اپنی فکر کی تجسیم کس طرح سے کروں بریدہ دست ہوں اور شہر بے ہنر میں ہوں نہ جانے کون سا موسم مجھے ہرا کر دے نمو کے واسطے بے تاب ...

    مزید پڑھیے