Narjis Afroz Zaidi

نرجس افروز زیدی

نرجس افروز زیدی کی غزل

    اک ہاتھ دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے

    اک ہاتھ دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے ہے چھاؤں میں جس کی وہ شجر کاٹ رہا ہے کاٹا تھا کبھی میں نے سفر ایک انوکھا اک عمر سے اب مجھ کو سفر کاٹ رہا ہے تم ڈرتے ہو آ جائے نہ بستی میں درندہ مجھ کو تو کوئی اور ہی ڈر کاٹ رہا ہے پھیلا ہے بہت دور تلک مجھ میں بیاباں ڈستا ہے دریچہ مجھے در کاٹ رہا ...

    مزید پڑھیے

    کہیں گرفت نہیں کوئی استعارا نہیں

    کہیں گرفت نہیں کوئی استعارا نہیں نواں فلک ہوں کہ جس پر کوئی ستارا نہیں رکے منڈیر پہ کب طائران رنگ سدا ثبات ہو جسے ایسا کوئی نظارا نہیں الجھ رہا ہے مرا بخت پھر مرے دل سے ہمارا کیسے ہے وہ شخص جو ہمارا نہیں درائے سرحد عقل و خرد اگر ہے خلا تو یہ نہ سمجھیں کہ اس بحر کا کنارا نہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    رقص زمیں کو گردش افلاک چاہیے

    رقص زمیں کو گردش افلاک چاہیے نقش قدم کو فرش خس و خاک چاہیے مٹی تو دست‌ کوزہ گراں میں ہے دیر سے برتن میں ڈھالنے کے لیے چاک چاہیے ہم ایسے سادہ لوح سے کیا مانگتی ہے زیست اس کو حریف بھی کوئی چالاک چاہیے کم فرصتی کا ان کی مجھے بھی لحاظ ہے احوال دل کو دیدۂ نمناک چاہیے ٹھہرے ہوئے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    اپنے پندار سے گھٹ کر نہیں قائم رہتا

    اپنے پندار سے گھٹ کر نہیں قائم رہتا فرد کردار سے ہٹ کر نہیں قائم رہتا عکس بٹ جاتا ہے آئینوں میں لیکن اے دل آئنہ عکس میں بٹ کر نہیں قائم رہتا کوئی بھی نقش ہو کتنا ہی مکمل لیکن وقت کی گرد میں اٹ کر نہیں قائم رہتا آسمانوں میں اڑانوں کا مزہ ہوگا مگر کوئی بھی خاک سے کٹ کر نہیں قائم ...

    مزید پڑھیے

    ترے خیال، ترے خواب، تیرے نام کے ساتھ

    ترے خیال، ترے خواب، تیرے نام کے ساتھ بنی ہے خاک مری کتنے اہتمام کے ساتھ بہت سے پھول تھے اور سارے اچھے رنگوں کے صبا نے بھیجے تھے جو کل ترے پیام کے ساتھ نظر ٹھہرتی نہ تھی اس پہ اور خود پر بھی میں آئینے میں تھی کل ایک لالہ فام کے ساتھ ترے خیال سے روشن ہے سر زمین سخن کہ جیسے زینت شب ...

    مزید پڑھیے

    نمی تھی آنکھ میں لیکن اک اعتماد بھی تھا

    نمی تھی آنکھ میں لیکن اک اعتماد بھی تھا مجھے تو حوصلہ جینے کا اس کے بعد بھی تھا بجھے ہوئے در و دیوار جانتے ہوں گے کبھی یہاں ترے جلووں کا انعقاد بھی تھا وہ ایک اسم طوالت جو شب کی کاٹ سکے وہ اسم عالم وحشت میں مجھ کو یاد بھی تھا خزاں نصیب سہی آج شاخسار حیات ہوا کا آنا کبھی صحن دل ...

    مزید پڑھیے

    امتحاں لینے چلا ہے مری بینائی کا

    امتحاں لینے چلا ہے مری بینائی کا اس کو اندازہ نہیں بات کی گہرائی کا اس لئے روک لیا اٹھا ہوا ہاتھ ہم نے اس کے ہر وار میں انداز تھا پسپائی کا خواب لکھتی رہیں آنکھیں در و بام شب پر صبح اک پہلو دکھاتی رہی سچائی کا اجنبی ہو گئے اک چھت تلے رہنے والے کچھ تو کفارہ ادا کرنا تھا یکجائی ...

    مزید پڑھیے

    غبار شب ذرا اس امر کی خبر کرنا

    غبار شب ذرا اس امر کی خبر کرنا کہاں سے ہے مجھے اب ہجر کا سفر کرنا یہ موج‌ باد زمانہ ہے بے لحاظ بہت تم اپنے اپنے چراغوں پہ اک نظر کرنا رہا نہ اس کو اگر مجھ پہ اعتماد تو پھر کسی حوالے سے کیا خود کو معتبر کرنا دعائیں دے کے ہی کرنا ہے اب اسے رخصت پھر اپنے ساتھ جو ہونا ہے درگزر ...

    مزید پڑھیے

    صورت حال دل بدلتا ہے

    صورت حال دل بدلتا ہے کوئی رہ رہ کے ہاتھ ملتا ہے دھوپ سے کیا شکایتیں کہ بدن چاندنی رات میں بھی جلتا ہے نیند ٹوٹی ہے کس کی آہٹ سے سطح دل پر کوئی تو چلتا ہے اب کہاں جائے موسم ہجراں میرے آنگن میں آ نکلتا ہے ایسا لگتا ہے بچپنا اب بھی میرا آنچل پکڑ کے چلتا ہے

    مزید پڑھیے