اک ہاتھ دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے
اک ہاتھ دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے ہے چھاؤں میں جس کی وہ شجر کاٹ رہا ہے کاٹا تھا کبھی میں نے سفر ایک انوکھا اک عمر سے اب مجھ کو سفر کاٹ رہا ہے تم ڈرتے ہو آ جائے نہ بستی میں درندہ مجھ کو تو کوئی اور ہی ڈر کاٹ رہا ہے پھیلا ہے بہت دور تلک مجھ میں بیاباں ڈستا ہے دریچہ مجھے در کاٹ رہا ...