Najm Aafandi

نجم آفندی

نامور مرثیہ گو شاعر،ناصر الملک نے شاعر اہل بیت کا خطاب عطا کیا۔

نجم آفندی کی غزل

    ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور

    ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور مذہب کا خدا اور ہے مطلب کا خدا اور پھر ٹھہر گیا قافلۂ درد سنا ہے شاید کوئی رستے میں مری طرح گرا اور اک جرعۂ آخر کی کمی رہ گئی آخر جتنی وہ پلاتے گئے آنکھوں نے کہا اور منبر سے بہت فصل ہے میدان عمل کا تقریر کے مرد اور ہیں مردان وغا اور اللہ ...

    مزید پڑھیے

    لے لوں گا جان دے کے محبت جہاں ملے

    لے لوں گا جان دے کے محبت جہاں ملے کچھ دن میں شاید اور یہ سودا گراں ملے اے کاروان عشق و وفا کے مسافرو کہنا مرا سلام بھی منزل جہاں ملے ہموار کر مزاج بہار و خزاں سے دل ممکن نہیں مزاج بہار و خزاں ملے یہ منزلت بھی حصہ دشمن میں آئے کیوں ہم سر نہ پھوڑ لیں جو ترا آستاں ملے پہلے ہی سے ...

    مزید پڑھیے

    مسکراہٹیں سیکھیں قہر کی نگاہوں سے

    مسکراہٹیں سیکھیں قہر کی نگاہوں سے داد سرکشی لے لی ہم نے کج کلاہوں سے کیا کہیں محبت کا راز کم نگاہوں سے ہم نے دل بنائے ہیں آنسوؤں سے آہوں سے اپنی معرفت کا ہم ایک دن سبق دیں گے دیکھتے چلے جاؤ اجنبی نگاہوں سے اس کے حق کا مجرم ہوں پھر بھی اس کی رحمت ہے خود بچا لیا مجھ کو مبتذل ...

    مزید پڑھیے

    محبت کی وہ آہٹ پا نہ جائے

    محبت کی وہ آہٹ پا نہ جائے اداؤں میں تکلف آ نہ جائے تری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دی ہیں کریں کیا جب تجھے دیکھا نہ جائے کہیں خود بھی بدلتا ہے زمانہ زبردستی اگر بدلا نہ جائے محبت راہ چلتے ٹوکتی ہے کسی دن زد میں تو بھی آ نہ جائے وہاں تک دین کے ساتھی ہزاروں جہاں تک ہاتھ سے دنیا نہ ...

    مزید پڑھیے