ڈھونڈھتی پھرتی ہے اب اس کو نگاہ واپسیں
ڈھونڈھتی پھرتی ہے اب اس کو نگاہ واپسیں اس دریچے میں اک افسانی تبسم تھا کہیں ساری تشبیہات دفنا دیں بیاباں میں کہیں تیرا کیا دنیا میں کوئی بھی کسی جیسا نہیں توڑ کر اک حسن ہر دن تجھ کو رکھا ہے حسیں زندگی کیا اپنے بارے میں بھی اب سوچیں ہمیں اب تو اس صحرا کے ہر گوشے پہ ہوتا ہے ...