نعیم رضا بھٹی کی غزل

    کچھ ایسا ہو گیا ہے یار اپنا

    کچھ ایسا ہو گیا ہے یار اپنا گلہ بنتا ہے اب بے کار اپنا پس پردہ بہت بے پردگی ہے بہت بیزار ہے کردار اپنا خرابے میں کسے اپنی خبر ہے اگرچہ کر لیا انکار اپنا در و دیوار سے جھڑتی ہے حیرت کہاں لے جاؤں میں آزار اپنا وفور نشۂ لغزش کے باعث ہوا ہے راستہ ہموار اپنا پتنگے گھیر لاتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    اس نے بھی خود کو بے کنار کیا

    اس نے بھی خود کو بے کنار کیا جس کا ساحل نے انتظار کیا آئنے میں سلگ رہا تھا لہو پھر بھی حیرت کا دل شمار کیا کورا ہونے سے پیشتر میں نے ایک اک رنگ اختیار کیا میری دیوانگی بھروسہ رکھ میں نے پانی کو بھی غبار کیا میں کہیں بھی پہنچ نہیں پایا کیونکہ سائے کو رہ گزار کیا تم بھی مصروف ہو ...

    مزید پڑھیے

    ہے تلخ تر حیات اس شراب سے

    ہے تلخ تر حیات اس شراب سے تو عشق ہار دے گا اجتناب سے کہانیاں دہک رہی ہیں رات کی بدن الجھ رہے ہیں ماہتاب سے خدائے خواب خیمہ زن تھا آنکھ میں سو دل چٹخ رہا تھا اضطراب سے میں روشنی کے بیج بو کے سو گیا چراغ اگ رہے ہیں کشت خواب سے رفو گرو ہم ایسے خستہ تن یہاں ادھڑ ادھڑ کے آئیں گے سراب ...

    مزید پڑھیے

    بات یہ ہے کہ بات کوئی نہیں

    بات یہ ہے کہ بات کوئی نہیں میں اکیلا ہوں ساتھ کوئی نہیں اب سہولت پہ ہی قناعت ہے ہوس ممکنات کوئی نہیں برگزیدہ ہے میرا سایہ بھی میرے سائے میں ہاتھ کوئی نہیں خوف آئے تو کھانس لیتا ہوں یعنی فطرت میں گھات کوئی نہیں ایک حد میں رکھا گیا ہے مجھے اور حد سے نجات کوئی نہیں

    مزید پڑھیے

    وہم ہے ہست بھی نیست بھی وہم ہے

    وہم ہے ہست بھی نیست بھی وہم ہے دین و دنیا کی ہر اک گلی وہم ہے کیسی آواز ہے کان پھٹ جائیں گے ہے بھی یا یہ مرا دائمی وہم ہے یہ تماشائے علم و ہنر دوستو کچھ نہیں ہے فقط کاغذی وہم ہے کھینچ لی ہے کماں میں نے اظہار کی اب ذرا پھر کہو زندگی وہم ہے اتنا حساس ہوں جتنا کوئی نہیں مان لو نہ ...

    مزید پڑھیے

    لوگ جنت میں جا رہے ہوں گے

    لوگ جنت میں جا رہے ہوں گے اور ہم سٹپٹا رہے ہوں گے تم بغاوت کی بات کرتے ہو ہم تو رسمیں نبھا رہے ہوں گے بے زبانی و نارسائی میں ہم خدا کو بلا رہے ہوں گے وہ کہیں گیت گا رہی ہوگی ہم کہیں تلملا رہے ہوں گے حسن مشہور ہو رہا ہوگا لوگ باتیں بنا رہے ہوں گے

    مزید پڑھیے

    دل درویش کی دعا سے اٹھا

    دل درویش کی دعا سے اٹھا یہ ہیولیٰ سا جو ہوا سے اٹھا جسم الجھا مگر تھکن اتری پر جو اک کرب نہروا سے اٹھا نشۂ خواب بعد میں اترا پہلے خوشنودئی ولا سے اٹھا شہر سر مست میں شفق اتری اور منظر کوئی ورا سے اٹھا اس کو میں انقلاب کہتا ہوں یہ جو انکار کی فضا سے اٹھا

    مزید پڑھیے

    کوئی پل جی اٹھے اگر ہم بھی

    کوئی پل جی اٹھے اگر ہم بھی دم نہ لے پائے گا یہاں دم بھی کار بے کار کا اثاثہ ہے مجھ سے بے جان کے سوا غم بھی کیا مرے بس میں کچھ نہیں رکھا غیب سے آئے گا اگر نم بھی جس جگہ اپنی بے بسی ہنس دے خاک کر پائے گا وہاں رم بھی اپنی بے اعتدالیوں کے سبب میں اگر بڑھ گیا ہوا کم بھی

    مزید پڑھیے