ہر کوئی شہر میں پابند انا لگتا ہے
ہر کوئی شہر میں پابند انا لگتا ہے کیا تماشا ہے کہ ہر شخص خدا لگتا ہے میں نے ہجرت کے بیاباں میں ریاضت کی ہے اب یہ جنگل مجھے فردوس نما لگتا ہے دیدۂ شوخ میں دیکھا ہے اتر کر میں نے حسن پندار ہے پردے میں بھلا لگتا ہے جب ترے غم سے نکلنے کی نہ صورت نکلے تیرا وحشی کسی دیوار سے جا لگتا ...