عقل گہوارۂ اوہام ہوئی جاتی ہے
عقل گہوارۂ اوہام ہوئی جاتی ہے ہر تمنا مری ناکام ہوئی جاتی ہے باعث شورش کونین ہے انساں کی خودی بے خودی مورد الزام ہوئی جاتی ہے اپنے پروانوں کو اے شمع مسلسل نہ جلا زندگی واقف انجام ہوئی جاتی ہے ہر روش پر چمن دہر میں یوں گل نہ کھلا ہر نظر دل کے لئے دام ہوئی جاتی ہے یوں بھی کوئی ...