Munshi Debi Parshad Sahar Badayuni

منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی

  • 1840 - 1902

منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    کہیں کیا کہ کیا کیا ستم دیکھتے ہیں

    کہیں کیا کہ کیا کیا ستم دیکھتے ہیں لکھا ہے جو قسمت میں ہم دیکھتے ہیں کبھی آہ نعرہ کبھی کھینچتے ہیں ہم اس ساز کا زیر و بم دیکھتے ہیں خط سر نوشت اپنا ہم پڑھ رہے ہیں تمہارا جو نقش قدم دیکھتے ہیں مرے رو بہ رو وہ بہم غیر سے ہیں نہ دیکھے کوئی جو کہ ہم دیکھتے ہیں رہی گر تلاش کمر یوں ہی ...

    مزید پڑھیے

    ہوش و شکیب و تاب و صبر و قرار پانچوں

    ہوش و شکیب و تاب و صبر و قرار پانچوں قربان کر چکا ہوں میں تجھ پہ یار پانچوں اک درد ہجر سے بس یہ پانچ عارضے ہیں بے ہوشی بے قراری غش تپ بخار پانچوں مطرب پسر کے غم میں بھاتے ہیں کس کے دل کو گوری ایمن البّا دیس اور ملار پانچوں ایمان و دین و مال و دل اور نقد جاں بھی میں کر چکا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    زینت عنواں ہے مضموں عالم توحید کا

    زینت عنواں ہے مضموں عالم توحید کا مطلع دیواں نہ کیوں مطلع بنے خورشید کا یہ سواد نامہ ہے یا سرمۂ تسخیر ہے ہے بیاض صفحہ یا ہے نور صبح عید کا دیر میں ہے وہ نہ ہے کعبہ میں اور ہے سب کہیں طالب نظارہ کو گر ہو سلیقہ دید کا ہو جو اس کے نام پر آغاز پورا ہو وہ کام ہے برآرندہ وہی ہر شخص کی ...

    مزید پڑھیے

    کچھ غرض وجہ مدعا باعث

    کچھ غرض وجہ مدعا باعث کیوں خفا ہو گئے ہو کیا باعث مجھ سے روٹھے ہو کیوں بلا باعث کیا خطا کیا قصور کیا باعث اب کھلا یہ کہ جان جانے کا تھا سبب دل ہی دل ہی تھا باعث میں نے چھیڑا تھا کیوں بگڑتے نہ وہ خفگی کی ہوئی خطا باعث میں انہیں چاہوں وہ یہ خود چاہیں کوئی ایسا ہو یا خدا باعث نہیں ...

    مزید پڑھیے

    قاتل کے کوچہ میں ہمہ تن جاؤں بن کے پاؤں

    قاتل کے کوچہ میں ہمہ تن جاؤں بن کے پاؤں مر کر ہی تاکہ سو تو ذرا پاؤں تن کے پاؤں کیوں کر رکھوں میں سیر کو اندر چمن کے پاؤں اک عمر سے تو ہو رہے خوگر ہیں بن کے پاؤں بھاری ہیں نازکی سے جو مہندی میں سن کے پاؤں کہتے ہیں کر دیے مرے کیوں لاکھ من کے پاؤں کیا ساتھ میرا دشت نوردی میں کر ...

    مزید پڑھیے

تمام