منیر احمد فردوس کی نظم

    ہم کیوں لکھتے ہیں۔۔۔۔؟

    ذہن کی زمینوں میں جڑیں پھیلاتا یہ سوال کہ ہم کیوں لکھتے ہیں۔۔۔؟ بے کار میں اپنے وقت کی دولت لٹا کر تخلیقی کرب کے نئے زائچوں میں خود کو کیوں قید کرتے ہیں۔۔۔؟ میں سوچتا ہوں۔۔۔ کہ عدالت میں جب مجرم پیش ہوتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہی مجرم ہے اس کا بیان کیوں لکھا جاتا ہے۔۔۔؟ گواہوں ...

    مزید پڑھیے

    آئینے سے جھانکتی بے چہرگی

    آئینہ چہروں کا جہاں حیرت مگر وہ مجھے میرا چہرہ دینے سے قاصر حیرت زدہ ہو کر میں نے بارہا آئینے میں جھانکا کتنے ہی آئینے بدل ڈالے ہر ایک سے اپنا چہرہ مانگا آئینے پر اپنے گمشدہ چہرے کی کئی نشانیاں تک عبارت کر ڈالیں لیکن میں کہیں موجود نہیں تھا شاید میں آئینے سے گم ہو گیا تھا اور وہ ...

    مزید پڑھیے

    منظر سے بچھڑنے کا کرب

    ہم اپنے منظر سے بچھڑے آنکھوں میں اس کا عکس لئے بھٹک رہے ہیں کوئی نئی رت ہمیں پناہ دینے لگتی ہے تو اچانک۔۔۔ بے دعا لمحوں کو کچھ نیا سوجھتا ہے اور سارا منظر بدل جاتا ہے جہاں پر اسرار آہٹیں ہمیں خوف کے جنگل میں چھوڑ آتی ہیں بے منظری روز ہم سے شکوہ کرتی ہے صبح جاگتے ہیں تو ہمارے چہروں ...

    مزید پڑھیے

    والعصر۔۔۔

    نہ صبحیں نہ شامیں ہمارے اندر بس ایک ہی وقت آ ٹھہرا سب لمحے یکجا ہو کر عصر کا وقت اوڑھے ہماری انگلی پکڑ کے ہمیں خساروں کے جنگل میں لے آئے جہاں ہر نیا موسم خساروں کی اک نئی فصل بو کے جب رخصت ہوتا ہے تو ہم عصر کے وقت سے بے نیاز چپ چاپ اس فصل کو کاٹ لیتے ہیں اور جا بجا ڈھیر لگاتے ...

    مزید پڑھیے

    دھندلا لمحہ

    جذبوں کی لڑائی میں جب کبھی احساس پر وار ہو جائے سب بیکار ہو جائے دعاؤں کا ایک مقدس سلسلہ آسمانوں سے اپنا ناطہ توڑ ڈالے وقت ہم کو وحشتوں کے حوالے کر کے چپ چاپ رخصت ہو جائے اور مقدر بھی پناہ دینے سے منکر ہو جائے تو یہ سب فقط اس بات کا اشارہ ہے۔۔۔ کہ خود سے بے خبر ہو کر جو لمحہ آلودہ ...

    مزید پڑھیے

    دراڑ

    رشتوں کی عداوت میں دلوں میں جو دراڑ پڑتی ہے اس سے رستا خون کبھی نہیں رکتا یہاں تک کہ معصومیت سرخ چہرہ لئے پیدا ہوتی ہے ہم سب کی منزل ایک سفید شہر جو روشن چہرے والوں کا مسکن مگر ہم سرخ ہاتھ اور سرخ چہرے لئے کیسے اس شہر میں داخل ہوں گے؟

    مزید پڑھیے

    (۲) بے چہرگی

    اپنی تاریخ کے اہراموں میں اتر کر دیکھیں عذاب مسلسل کی یہ فصل ہمارے پاس تاریخ کی نشانی ہے یا سرخ سیاہی سے ہماری نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے وہ آنکھیں، وہ ہاتھ، وہ چہرے اب کون ڈھونڈے۔۔۔؟ جنہوں نے حادثوں کو یہاں چلنا سکھایا اگر وہ مل بھی جائیں۔۔۔ تو انہیں کون پہچانے گا؟ انہوں نے تو ...

    مزید پڑھیے

    زندگی چہرہ مانگتی ہے

    آج زندگی کی تاریخ تھی اور وہ اس کے سامنے چیخ رہی تھی جس نے آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ رکھی تھی ''اب میں بے چہرہ کیسے جیوں؟ میں نے تو اپنا چہرہ کاٹ کاٹ کر بے چہرہ نسلوں میں بانٹ دیا میری کور چشمی گواہ ہے کہ میں نے اپنے سبھی منظر بے منظر آنکھوں کو دے دئے میری تمام خواہشیں نئی نسل نے بیچ ...

    مزید پڑھیے

    حنوط چہرے

    شہر دل کے خاموش گلی کوچوں میں دکھوں کے قافلے آ کر ٹھہرے ہیں حد نظر اداسی کی دھوپ پھیلی ہے وفا کے ٹھکرائے ستم پرور چہروں کی بھیڑ میں محبت کی در بدری کا فیصلہ ہوا ہے نفرتوں میں ڈوبے کچھ چہرے مل کے ایک خوش رنگ منظر کو ویرانیوں کے دشت میں دفن کرتے ہیں سفید پرندوں کی آنکھوں میں اشکوں ...

    مزید پڑھیے

    بند دریچوں میں زندگی

    بند دریچے، جو کبھی بند نہیں ہوتے جہاں کرنوں کے جھانکنے پر پہرے ہیں اندھیری کوٹھریوں میں زباں خاموش، جسم بولتے ہیں جب کوئی خواہش زادہ اپنی برہنہ خواہش لئے کسی بند دریچے کا رخ کرتا ہے تو پاکیزگی اور پیراہن کونے میں بیٹھ کر بین کرتے ہیں زخم آلود جسم کے اندر چیخیں کہرام برپا کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2