ہدف ہوں دشمن جاں کی نظر میں رہتا ہوں
ہدف ہوں دشمن جاں کی نظر میں رہتا ہوں کسے خبر ہے قفس میں کہ گھر میں رہتا ہوں ادھر ادھر کے کنارے مجھے بلاتے ہیں مگر میں اپنی خوشی سے بھنور میں رہتا ہوں نہ میں زمیں ہوں نہ تو آفتاب ہے پھر بھی ترے طواف کی خاطر سفر میں رہتا ہوں میں سایہ دار نہیں اس کے باوجود یہ دیکھ پہن کے دھوپ تری رہ ...