انکار کسے، اوج قمر تک نہیں پہنچا
انکار کسے، اوج قمر تک نہیں پہنچا انسان مگر دل کے نگر تک نہیں پہنچا اٹھا تو ہر اک جھکتی ہوئی شاخ کی جانب ہاتھ اپنا کسی شاخ ثمر تک نہیں پہنچا طوفان کی زد پر ہے اگر شہر اسے کیا وہ خوش ہے کہ پانی ابھی گھر تک نہیں پہنچا ہر راہ لئے جاتی ہے اک بند گلی تک رستہ کوئی اس شوخ کے در تک نہیں ...