Moosa Raza

موسیٰ رضا

موسیٰ رضا کی غزل

    تم میرے ساتھ بھی جدا بھی ہو

    تم میرے ساتھ بھی جدا بھی ہو تم مرا درد بھی دوا بھی ہو تم سفینہ بھی ناخدا بھی ہو تم تلاطم بھی آسرا بھی ہو ڈھونڈھتا ہوں کہاں کہاں تم کو راہزن تم ہو رہنما بھی ہو تم ہی ہو میری گرمئی آغوش میرے پہلو کا تم خلا بھی ہو دل کے رکنے کی ہو تم ہی آواز دل کی دھڑکن کی تم صدا بھی ہو پی کے سرشار ...

    مزید پڑھیے

    خدا کرے تو کسی راز کا امیں نہ بنے

    خدا کرے تو کسی راز کا امیں نہ بنے گماں گماں ہی رہے اور کبھی یقیں نہ بنے تجھے یہ شوق کہ پرواز ہو بلند اپنی مجھے یہ ڈر کہ کبھی آسماں زمیں نہ بنے یہ بات اور ہے کوشش ہزار کی ہم نے ہمارے شعر تمہاری طرح حسیں نہ بنے یہ المیہ ہے ہمارا کہ ہم بہ ہر صورت تماشا گاہ رہے اور تماش بیں نہ ...

    مزید پڑھیے

    کبھی وہ دوست کبھی فتنہ ساز لگتا ہے

    کبھی وہ دوست کبھی فتنہ ساز لگتا ہے وہ دیکھنے میں بڑا دل نواز لگتا ہے غضب میں آئے تو آتش مزاج بن جائے وہ مہرباں ہو تو محفل گداز لگتا ہے جہاں کا درد بھرا ہے مزاج میں اس کے وہ ایک ہم سے فقط بے نیاز لگتا ہے وہ توڑتا بھی ہے دل اک ادائے ناز کے ساتھ ستم گری میں بھی وہ چارہ ساز لگتا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی حدود سے باہر کبھی وہ حد میں رہا

    کبھی حدود سے باہر کبھی وہ حد میں رہا مرا یقین ہمیشہ گماں کی زد میں رہا ہے بحر و بر میں رواں حال میرا سیارہ گہے وہ برج سمک میں گہے اسد میں رہا اسی کے دم سے رہی زندگی کی رنگینی جنوں کا کیف جو پیمانۂ خرد میں رہا اسے نصیب کہاں لذت سبیل سفر وہ کارواں جو نگہبانی رسد میں رہا اسے کہاں ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری بزم میں محروم جام ہم بھی تھے

    تمہاری بزم میں محروم جام ہم بھی تھے فقط رقیب نہیں تشنہ کام ہم بھی تھے فقیہ شہر نے گمراہ کر دیا ورنہ صفت شناس حلال و حرام ہم بھی تھے عمامہ بند و قبا پوشگاں کا ذکر ہی کیا ترے حضور میں با احترام ہم بھی تھے شکستہ پائی میر سفر کا کیا شکوہ کہ راہ شوق میں کچھ سست گام ہم بھی تھے تری ...

    مزید پڑھیے

    موج خوں جوش میں تھی اپنے قدم سے پہلے

    موج خوں جوش میں تھی اپنے قدم سے پہلے کوئی آیا تھا یہاں دشت میں ہم سے پہلے طور بے نور تھا موسیٰ کے قدم سے پہلے کس نے دیکھا ہے ترے حسن کو ہم سے پہلے خیر گزری کہ جنوں وقت پہ کام آ ہی گیا سنگ در مل گیا محراب حرم سے پہلے ہم بھی کندھوں پہ اٹھا لائیں گے مقتل میں صلیب کچھ اشارہ تو ملے ...

    مزید پڑھیے

    پوچھتے ہو مرے اشعار میں کیا رکھا ہے

    پوچھتے ہو مرے اشعار میں کیا رکھا ہے ایک محشر ہے کہ لفظوں میں چھپا رکھا ہے مدتیں ہو گئیں دیکھے ہوئے آئینہ ہمیں ایک تصویر کی تصویر میں کیا رکھا ہے وہی بدلے ہوئے تیور وہی کل کا وعدہ اس لیے ہم نے ترا نام خدا رکھا ہے آج تک ناخن فطرت ہیں لہو سے رنگیں میری تخلیق سے ہاتھوں کو سجا رکھا ...

    مزید پڑھیے

    ان سے اقرار وفا کی آرزو کرتے رہے

    ان سے اقرار وفا کی آرزو کرتے رہے عمر بھر اک بے زباں سے گفتگو کرتے رہے جس طرف نظریں اٹھیں اک اجنبی چہرہ ملا آئنہ خانے میں اپنی جستجو کرتے رہے تم سے مل کر بھی رہا ہم کو تمہارا انتظار تم کو پا کر بھی تمہاری آرزو کرتے رہے کون جانے رونما ہوں کون سی جانب سے وہ اس لئے سجدے پہ سجدہ چار ...

    مزید پڑھیے

    اپنی نظر میں آپ کو رسوا نہ کر سکے

    اپنی نظر میں آپ کو رسوا نہ کر سکے ہم دشمنوں کے ساتھ بھی دھوکا نہ کر سکے سب راستوں کا علم تھا منزل قریب تھی افسوس ہم سفر کا ارادہ نہ کر سکے آنکھیں اسیر ذہن گرفتار لب بہ قفل ان کے حضور ایک اشارہ نہ کر سکے ان کا ستم تو خیر بہت سہہ لیا مگر ان کے کرم کا بوجھ گوارا نہ کر سکے یاران غم ...

    مزید پڑھیے

    نہ وہ ہجر میں رہیں تلخیاں نہ وہ لذتیں ہیں وصال میں

    نہ وہ ہجر میں رہیں تلخیاں نہ وہ لذتیں ہیں وصال میں نہ گزر ترا مرے خواب میں نہ میں گم ہوں تیرے خیال میں نہ تری ادا میں وہ دل کشی نہ مری غزل میں وہ تازگی وہ غبار وقت میں دب گئی جو کشش تھی حسن و جمال میں میں تری جفا سے خفا نہیں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں مجھے فکر کیا ہے مآل کی تجھے کیا ...

    مزید پڑھیے