Meraj Faizabadi

معراج فیض آبادی

معراج فیض آبادی کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    بھیڑ میں کوئی شناسا بھی نہیں چھوڑتی ہے

    بھیڑ میں کوئی شناسا بھی نہیں چھوڑتی ہے زندگی مجھ کو اکیلا بھی نہیں چھوڑتی ہے عافیت کا کوئی گوشہ بھی نہیں چھوڑتی ہے اور دنیا مرا رستہ بھی نہیں چھوڑتی ہے مجھ کو رسوا بھی بہت کرتی ہے شہرت کی ہوس اور شہرت مرا پیچھا بھی نہیں چھوڑتی ہے ہم کو دو گھونٹ کی خیرات ہی دے دو ورنہ پیاس پاگل ...

    مزید پڑھیے

    مرے تھکے ہوئے شانوں سے بوجھ اتر تو گیا

    مرے تھکے ہوئے شانوں سے بوجھ اتر تو گیا بہت طویل تھا یہ دن مگر گزر تو گیا لگا کے داؤ پہ سانسوں کی آخری پونجی وہ مطمئن ہے چلو ہارنے کا ڈر تو گیا کسی گناہ کی پرچھائیاں تھیں چہرے پر سمجھ نہ پایا مگر آئنے سے ڈر تو گیا یہ اور بات کہ کاندھوں پہ لے گئے ہیں اسے کسی بہانے سے دیوانہ آج گھر ...

    مزید پڑھیے

    بھیگتی آنکھوں کے منظر نہیں دیکھے جاتے

    بھیگتی آنکھوں کے منظر نہیں دیکھے جاتے ہم سے اب اتنے سمندر نہیں دیکھے جاتے اس سے ملنا ہے تو پھر سادہ مزاجی سے ملو آئینے بھیس بدل کر نہیں دیکھے جاتے وضع داری تو بزرگوں کی امانت ہے مگر اب یہ بکتے ہوئے زیور نہیں دیکھے جاتے زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا جنگ لازم ہو تو لشکر ...

    مزید پڑھیے

    چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے

    چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے مسرتوں میں بھی جاگے گناہ کااحساس مرے وجود کو اتنی بھی پارسائی نہ دے بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں خدا کسی کو بھی توفیق آشنائی نہ دے میں ساری عمر اندھیروں میں کاٹ سکتا ہوں مرے دیوں کو مگر روشنی پرائی ...

    مزید پڑھیے

    ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم

    ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم کیوں ہمیں لوگ سمجھتے ہیں یہاں پردیسی ایک مدت سے اسی شہر میں آباد ہیں ہم کاہے کا ترک وطن کاہے کی ہجرت بابا اسی دھرتی کی اسی دیش کی اولاد ہیں ہم ہم بھی تعمیر وطن میں ہیں برابر کے شریک در و دیوار اگر تم ہو تو ...

    مزید پڑھیے

تمام