Liyaqat Ali Aasim

لیاقت علی عاصم

لیاقت علی عاصم کی غزل

    کیا خوب یہ انا ہے کہ کشکول توڑ کر

    کیا خوب یہ انا ہے کہ کشکول توڑ کر اب تک کھڑے ہوئے ہیں وہیں ہاتھ جوڑ کر مر ہی نہ جائے ضبط فغاں سے کہیں یہ شہر سینے سے اس کے آہ نکالو جھنجھوڑ کر سنت ہے کوئی ہجرت ثانی بھلا بتاؤ جاتا ہے کوئی اپنے مدینے کو چھوڑ کر اس کے علاوہ کوئی ہمارا نہیں یہاں جاؤ کوئی خدا کو بلا لاؤ دوڑ کر عاصمؔ ...

    مزید پڑھیے

    پھر وہی بے دلی پھر وہی معذرت

    پھر وہی بے دلی پھر وہی معذرت بس بہت ہو چکا زندگی معذرت خود کلامی سے بھی روٹھ جاتی ہے تو اب نہ بولوں گا اے خامشی معذرت دھوپ ڈھل بھی چکی سائے اٹھ بھی چکے اب مرے یار کس بات کی معذرت داد بیداد میں دل نہیں لگ رہا دوستو شکریہ شاعری معذرت بے خودی میں خدائی کا دعویٰ کیا اے خدا در گزر ...

    مزید پڑھیے

    ملے تو کاش مرا ہاتھ تھام کر لے جائے

    ملے تو کاش مرا ہاتھ تھام کر لے جائے وہ اپنے گھر نہ سہی مجھ کو میرے گھر لے جائے بتان شہر تمہارے لرزتے ہاتھوں میں کوئی تو سنگ ہو ایسا کہ میرا سر لے جائے دیا کروں گا یوں ہی تیرے نام کی دستک مرا نصیب مجھے لاکھ در بدر لے جائے وہ آدمی ہو کہ خوشبو بہت ہی رسوا ہے ہوائے شہر جسے اپنے دوش ...

    مزید پڑھیے

    محراب خوش قیام سے آگے نکل گئی

    محراب خوش قیام سے آگے نکل گئی خوشبو دیے کی شام سے آگے نکل گئی غافل نہ جانئے مجھے مصروف جنگ ہوں اس چپ سے جو کلام سے آگے نکل گئی تم ساتھ ہو تو دھوپ کا احساس تک نہیں یہ دوپہر تو شام سے آگے نکل گئی مرنے کا کوئی خوف نہ جینے کی آرزو کیا زندگی دوام سے آگے نکل گئی عاصمؔ وہ کوئی دوست ...

    مزید پڑھیے

    کہیں ایسا نہ ہو دامن جلا لو

    کہیں ایسا نہ ہو دامن جلا لو ہمارے آنسوؤں پر خاک ڈالو منانا ہی ضروری ہے تو پھر تم ہمیں سب سے خفا ہو کر منا لو بہت روئی ہوئی لگتی ہیں آنکھیں مری خاطر ذرا کاجل لگا لو اکیلے پن سے خوف آتا ہے مجھ کو کہاں ہو اے مرے خوابو خیالو بہت مایوس بیٹھا ہوں میں تم سے کبھی آ کر مجھے حیرت میں ...

    مزید پڑھیے

    کئی عکس ماہ تمام تھے مجھے کھا گئے

    کئی عکس ماہ تمام تھے مجھے کھا گئے وہ جو خواب سے لب بام تھے مجھے کھا گئے کوئی راکھ تھی جو سلگ رہی تھی ادھر ادھر وہ جو رنگ سایۂ شام تھے مجھے کھا گئے وہ جو آنسوؤں کی زبان تھی مجھے پی گئی وہ جو بے بسی کے کلام تھے مجھے کھا گئے وہ جو منزلوں کی دعائیں تھیں نہیں لے گئیں وہ جو راستے کے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی آس پاس نہیں رہا تو خیال تیری طرف گیا

    کوئی آس پاس نہیں رہا تو خیال تیری طرف گیا مجھے اپنا ہاتھ بھی چھو گیا تو خیال تیری طرف گیا کوئی آ کے جیسے چلا گیا کوئی جا کے جیسے گیا نہیں مجھے اپنا گھر کبھی گھر لگا تو خیال تیری طرف گیا مری بے کلی تھی شگفتگی سو بہار مجھ سے لپٹ گئی کہا وہم نے کہ یہ کون تھا تو خیال تیری طرف ...

    مزید پڑھیے

    خواب تعبیر میں ڈھلتے ہیں یہاں سے آگے

    خواب تعبیر میں ڈھلتے ہیں یہاں سے آگے آ نکل جائیں شب وہم و گماں سے آگے رنگ پیراہن خاکی کا بدلنے کے لیے مجھ کو جانا ہے ابھی ریگ رواں سے آگے اک قدم اور سہی شہر تنفس سے ادھر اک سفر اور سہی کوچۂ جاں سے آگے اس سفر سے کوئی لوٹا نہیں کس سے پوچھیں کیسی منزل ہے جہان گزراں سے آگے میں بہت ...

    مزید پڑھیے

    تو نہ تھا تیری تمنا دیکھنے کی چیز تھی

    تو نہ تھا تیری تمنا دیکھنے کی چیز تھی دل نہ مانا ورنہ دنیا دیکھنے کی چیز تھی کیا خبر میرے جنوں کو شہر کیوں راس آ گیا ایسے عالم میں تو صحرا دیکھنے کی چیز تھی تم کو اے آنکھو کہاں رکھتا میں کنج خواب میں حسن تھا اور حسن تنہا دیکھنے کی چیز تھی لمس کی لو میں پگھلتا حجرۂ ذات و صفات تم ...

    مزید پڑھیے

    عاجز تھا بے عجز نبھائی رسم جدائی میں نے بھی

    عاجز تھا بے عجز نبھائی رسم جدائی میں نے بھی اس نے مجھ سے ہاتھ چھڑایا جان چھڑائی میں نے بھی جنگل کے جل جانے کا افسوس ہے لیکن کیا کرنا اس نے میرے پر گرائے آگ لگائی میں نے بھی اس نے اپنے بکھرے گھر کو پھر سے سمیٹا ٹھیک کیا اپنے بام و در پہ بیٹھی گرد اڑائی میں نے بھی نوحہ گران یار میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2