Kamran Hamid

کامران حامد

کامران حامد کی غزل

    بڑی مدت سے تھا اندر مگر کل ہی نکالا ہے

    بڑی مدت سے تھا اندر مگر کل ہی نکالا ہے تمہیں کھونے کا تھا دل میں جو ڈر کل ہی نکالا ہے ہمیں کیا خاک تھا معلوم ایسے دل دکھائے گا پرانا خط جو ہم نے کھوج کر کل ہی نکالا ہے یہ تیرے خواب بھی کمبخت راتوں کو ان آنکھوں میں مسلسل پھر رہے تھے در بہ در کل ہی نکالا ہے اک عرصہ ہو گیا تجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    کل رات تیری یاد کو ہم نے بٹھایا اور بس

    کل رات تیری یاد کو ہم نے بٹھایا اور بس تکتے رہے مہتاب کو کچھ یاد آیا اور بس شکوے کئی تھے تھے کئی ہم کو گلے اس نے مگر ملتے ہی یوں معصومیت سے مسکرایا اور بس پیشانیوں پر تھی شکن غصے سے یوں سب لال تھے پھر ایک دم اس نے نظر کو یوں جھکایا اور بس دیکھا جو اس نے ہجر کو اک روز اپنے خواب ...

    مزید پڑھیے

    کہاں تیری پرچھائیوں کو پتا تھا

    کہاں تیری پرچھائیوں کو پتا تھا کہ تیرا پتا تتلیوں کو پتا تھا مرے رمز جو بھی ہیں جیسے بھی ہیں بس تری کان کی بالیوں کو پتا تھا بیاں آپ کو کرنا ممکن نہیں ہے یہ ساری غزل خوانیوں کو پتا تھا نہیں پاس میرے غموں کے سوا کچھ چلو خیر خوش حالیوں کو پتا تھا کچھ ان کو بھی تھی خبر تھوڑی ...

    مزید پڑھیے

    غضب ہے وہ زلفیں ہے رخسار دل کش

    غضب ہے وہ زلفیں ہے رخسار دل کش بھلا کیوں نہ ہوگا وہ کردار دل کش گزر ان کے کوچہ سے ایسا لگے ہے کہ جیسے ہے باغیچہ گل بار دلکش محبت ہے میری مرے فلسفے ہیں تمہیں جیت دل کش ہمیں ہار دل کش مجھے دیکھنے کے ہی ضد پہ اڑا ہے سنا ہے کہ جب سے ہے بیمار دل کش وہ اک شخص کی غیر موجودگی میں ہوئے کب ...

    مزید پڑھیے

    ہماری غم عاشقی گر وبا ہے

    ہماری غم عاشقی گر وبا ہے تو کیا پھر ترے پاس کوئی دوا ہے تری یاد کل رات پھر ایسے گزری کہ جیسے گزرتی یہ پاگل ہوا ہے ہمیں بھی بتا نا ہماری طرح پھر کسے تیری افسردگی کا پتہ ہے گلہ کیا کریں چھوڑ جانے بھی دے اب رہے تو بلندی پہ میری دعا ہے تجھے کیا خبر تیری ناراضگی نے رضامندی کو کیسے ...

    مزید پڑھیے