Kaleem Sahasrami

کلیم سہسرامی

  • 1930

کلیم سہسرامی کی غزل

    پھر اضطراب شوق میں غم سے مفر کہاں

    پھر اضطراب شوق میں غم سے مفر کہاں وہ حسن التفات وہ حسن نظر کہاں تاریکیٔ حیات سے گھبرا گیا ہے جی دیکھیں شب فراق کی پھر ہو سحر کہاں تیرے بغیر محفل دل بھی اداس ہے اے حسن نا شناس تجھے یہ خبر کہاں اب تک سمجھ رہا تھا جسے تیری رہ گزر تھا اک فریب شوق تری رہ گزر کہاں عرصہ ہوا کہ بزم تمنا ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی جب سے جفاؤں کا سلسلہ نہ رہا

    کسی کی جب سے جفاؤں کا سلسلہ نہ رہا دل حزیں میں محبت کا حوصلہ نہ رہا دیار حسن میں ملتی نہیں ہے جنس وفا دل غریب کا اب ان سے واسطہ نہ رہا ہوائے یاس نے شمع امید گل کر دی کسی سے اب کوئی شکوہ بھی برملا نہ رہا مری نظر کا تقاضا بھلا وہ کیا سمجھیں کہ حسن و عشق میں پہلا سا رابطہ نہ رہا اجڑ ...

    مزید پڑھیے

    نہ ہو جو ان کی طبیعت وفا شعار نہیں

    نہ ہو جو ان کی طبیعت وفا شعار نہیں ہمیں تو تلخیٔ دوراں بھی ناگوار نہیں یہ ظرف ظرف کی باتیں ہیں اس کا کیا شکوہ ہے شکر آپ کی نظروں میں شرمسار نہیں ہمیں نے خون سے سینچا ہے غنچہ و گل کو بہار کہتے ہیں جس کو وہ یہ بہار نہیں نظر نظر ہے فسانہ نفس نفس شکوہ ہجوم یاس میں شرمندۂ بہار ...

    مزید پڑھیے