Kaif Ansari

کیف انصاری

کیف انصاری کی غزل

    تیرے حسین جسم کی پھولوں میں باس ہے

    تیرے حسین جسم کی پھولوں میں باس ہے گو وہم ہے یہ وہم قرین قیاس ہے وہ اشک جس پہ چاندنی‌ شب کا لباس ہے شاید کتاب غم کا کوئی اقتباس ہے میری طرح ہر اک کو ہے چاہت اسی کی پھر گزرے دنوں کے زہر میں کتنی مٹھاس ہے برسوں گزر گئے مگر اب تک نہیں بجھی کتنی عجیب ریت کے ساحل کی پیاس ہے میری صدا ...

    مزید پڑھیے

    چاند ابھرا نہ مرے جسم سے سایا نکلا

    چاند ابھرا نہ مرے جسم سے سایا نکلا شام غم آئی تو میں گھر سے اکیلا نکلا آج آیا ہے دریچے پہ ہوا کا جھونکا آج کوئی تو مجھے دیکھنے والا نکلا یہ الگ بات کہ کھلنے لگے پلکوں کے ورق نوک لب سے نہ کبھی حرف تمنا نکلا ہو گئے اور در و بام نظر سے اوجھل در حقیقت یہ اجالا بھی اندھیرا نکلا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی ڈوبے ہوئے سورج نے ابھرنا چاہا

    جب بھی ڈوبے ہوئے سورج نے ابھرنا چاہا شہر والوں نے بھی گلیوں میں بکھرنا چاہا آج کانٹوں سے الجھتا ہے گریباں اس کا جس نے سبزے پہ کبھی پاؤں نہ دھرنا چاہا ہو گئیں صورت دیوار ہوائیں حائل جب کسی اشک نے دامن پہ اترنا چاہا چاندنی‌ شب تھی کہ میں تھا کہ ہوا کے سائے ہر کسی نے ترے کوچے میں ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ حادثے گزرے ہیں پانیوں کی طرح

    اگرچہ حادثے گزرے ہیں پانیوں کی طرح خموش رہ گئے ہم لوگ ساحلوں کی طرح کسی کے سامنے میں کس لیے زباں کھولوں ملی ہے اپنی انا مجھ کو دشمنوں کی طرح ترے بغیر نظر آئے ہیں مجھے اکثر مکان کے در و دیوار قاتلوں کی طرح نہ جانے کون سی منزل کو چل دیے پتے بھٹک رہی ہیں ہوائیں مسافروں کی ...

    مزید پڑھیے