Jawaz Jafri

جواز جعفری

جواز جعفری کی غزل

    کبھی دیوار کو ترسے کبھی در کو ترسے

    کبھی دیوار کو ترسے کبھی در کو ترسے ہم ہوئے خانہ بدوش ایسے کہ گھر کو ترسے جھوٹ بولوں تو چپک جائے زباں تالو سے جھوٹ لکھوں تو مرا ہاتھ ہنر کو ترسے قریۂ نامہ براں اب کے کہاں جائیں کہ جب ترے پہلو میں بھی ہم اس کی خبر کو ترسے سب کے سب تشنۂ تکمیل ہیں اس شہر کے لوگ کوئی دستار کو ترسے ...

    مزید پڑھیے

    اب کے میدان رہا لشکر اغیار کے ہاتھ

    اب کے میدان رہا لشکر اغیار کے ہاتھ گروی اس پار پڑے تھے مرے سالار کے ہاتھ ذہن اس خوف سے ہونے لگے بنجر کہ یہاں اچھی تخلیق پر کٹ جاتے ہیں معمار کے ہاتھ اب سر قریۂ بے دست پڑا ہے کشکول روز کٹ جاتے تھے اس شہر میں دو چار کے ہاتھ لوٹ کچھ ایسی مچی شہر کا در کھلتے ہی ہر طرف سے نکل آئے در و ...

    مزید پڑھیے

    ادا زبان سے حرف نہیں زیادہ ہوا

    ادا زبان سے حرف نہیں زیادہ ہوا اسی پہ قتل مرا سارا خانوادہ ہوا طلب نے زین سجائی کرن کے گھوڑے پر کبھی جو سیر مہ و مہر کا ارادہ ہوا ہمیں نے جست بھری وقت کے سمندر میں ہمیں سے دامن ارض و سما کشادہ ہوا عدو نے لوٹ لی مقتل میں جب مری پوشاک تو میرا خون مرے جسم کا لبادہ ہوا ادب کا زینہ ...

    مزید پڑھیے