Javed Vashisht

جاوید وششٹ

جاوید وششٹ کی غزل

    دل کی خاطر ہی زمانے کی بلا ہو جیسے

    دل کی خاطر ہی زمانے کی بلا ہو جیسے زندگی اپنے گناہوں کی سزا ہو جیسے دل کی وادی میں تمناؤں کی رنگا رنگی کوئی میلا کسی بستی میں لگا ہو جیسے ہاں پکارا ہے غم زیست نے یوں بھی ہم کو پیار میں ڈوبی ہوئی تیری صدا ہو جیسے جادۂ شوق میں جلتے ہیں دیے دور تلک اپنا ہر نقش قدم راہنما ہو ...

    مزید پڑھیے

    تشنہ لب کہتے رہے سنتی رہی پیاسی رات

    تشنہ لب کہتے رہے سنتی رہی پیاسی رات صبح تک چلتی رہی درد تہ جام کی بات یہ ہوس پیشہ ہوس کار ہوس خو دنیا خوب ہے جس میں بھٹکتی ہے گزر گاہ نجات پڑتے ہی دل پہ کسی شوخ نظر کا پرتو جگمگانے لگی دھڑکن تو سجے محسوسات جگمگاتی ہے کرن درد کی دھڑکن دھڑکن آپ کو پیش کروں پیار کی رنگیں سوغات اک ...

    مزید پڑھیے

    چاند تاروں کی بھری بزم اٹھی جاتی ہے

    چاند تاروں کی بھری بزم اٹھی جاتی ہے اب تو آ جاؤ حسیں رات ڈھلی جاتی ہے رفتہ رفتہ تری ہر یاد مٹی جاتی ہے گرد سی وقت کے چہرے پہ جمی جاتی ہے میرے آگے سے ہٹا لو مے و مینا و سبو ان سے کچھ اور مری پیاس بڑھی جاتی ہے آج اپنے بھی پرائے سے نظر آتے ہیں پیار کی رسم زمانے سے اٹھی جاتی ہے کس لیے ...

    مزید پڑھیے

    عزیز آئے مدد کو نہ غم گسار آئے

    عزیز آئے مدد کو نہ غم گسار آئے زمانے بھر کو مصیبت میں ہم پکار آئے سمجھ سکی نہ خرد جب ترے اشارے کو جنوں نصیب ہمیں تھے جو سوئے دار آئے ملے گا تحفۂ دل کے عوض نشاط کہ غم کسے خبر ہے کہ جیت آئے ہم کہ ہار آئے جنوں کی آبلہ پائی سے پھول کھلتے گئے نہ جانے کتنے بیابان ہم نکھار آئے ہمارے ...

    مزید پڑھیے

    جلوۂ حسن ازل دیدۂ بینا مجھ سے

    جلوۂ حسن ازل دیدۂ بینا مجھ سے جانے کیا سوچ کے پھر کر لیا پردہ مجھ سے غم سے احساس کا آئینہ جلا پاتا ہے اور غم سیکھے ہے آ کر یہ سلیقہ مجھ سے رات پھر جشن چراغاں کے لیے مانگا تھا موج احساس نے اک پیاس کا شعلہ مجھ سے میں نے مظلوم کا بس نام لیا تھا لوگو جانے کیوں ہو گیا برہم وہ مسیحا مجھ ...

    مزید پڑھیے

    عیش رفتہ نے بہت خون رلایا ہے مجھے

    عیش رفتہ نے بہت خون رلایا ہے مجھے پھول کی سیج نے کانٹوں پہ سلایا ہے مجھے دے کے اک شعلۂ گفتار جگایا ہے مجھے عہد خوابیدہ نے بے درد بنایا ہے مجھے زرد رو خار بھی ہے عاشق سلمائے بہار شوخ کلیوں نے اشاروں میں بتایا ہے مجھے ٹوٹتا ہی نہیں رنگینیٔ خواہش کا طلسم اسم اعظم کا عمل بھی تو ...

    مزید پڑھیے

    آگہی سود و زیاں کی کوئی مشکل بھی نہیں

    آگہی سود و زیاں کی کوئی مشکل بھی نہیں حاصل عمر مگر عمر کا حاصل بھی نہیں آنکھ اٹھاؤ تو حجابات کا اک عالم ہے دل سے دیکھو تو کوئی راہ میں حائل بھی نہیں دل تو کیا جاں سے بھی انکار نہیں ہے لیکن دل ہے بد نام بہت پھر ترے قابل بھی نہیں الجھنیں لاکھ سہی زیست میں لیکن یارو رونق بزم جہاں ...

    مزید پڑھیے

    مسیح وقت بھی دیکھے ہے دیدۂ نم سے

    مسیح وقت بھی دیکھے ہے دیدۂ نم سے یہ کیسا زخم ہے یارو خفا ہے مرہم سے کوئی خیال کوئی یاد کوئی تو احساس ملا دے آج ذرا آ کے ہم کو خود ہم سے ہمارا جام سفالیں ہی پھر غنیمت تھا ملی شراب بھلا کس کو ساغر جم سے ہوا بھی تیز ہے یورش بھی ہے اندھیروں کی جلائے مشعلیں بیٹھے ہیں لوگ برہم سے غموں ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو داغ عشق تھا خوش نما جو امانت دل زار تھا

    وہ جو داغ عشق تھا خوش نما جو امانت دل زار تھا سر بزم تھا تو چراغ تھا سر راہ تھا تو غبار تھا اسے میں ہی جانوں ہوں دوستوں کسو وقت اپنا بھی یار تھا کبھو موم تھا کبھو سنگ تھا کبھو پھول تھا کبھو خار تھا تری یاد ہے کہ بجھی بجھی ترا ذکر ہے کہ رکا رکا تری یاد سے تو سکون تھا ترے ذکر سے تو ...

    مزید پڑھیے

    ہر دل جو ہے بیتاب تو ہر اک آنکھ بھری ہے

    ہر دل جو ہے بیتاب تو ہر اک آنکھ بھری ہے انسان پہ سچ مچ کوئی افتاد پڑی ہے رہ رو بھی وہی اور وہی راہبری بھی منزل کا پتہ ہے نہ کہیں راہ ملی ہے مدت سے رہی فرش تری راہ گزر میں تب جا کے ستاروں سے کہیں آنکھ لڑی ہے ایسا بھی کہیں دیکھا ہے مے خانے کا دستور ہر چشم ہے لبریز ہر اک جام تہی ...

    مزید پڑھیے