Javed Akram Farooqi

جاوید اکرم فاروقی

جاوید اکرم فاروقی کی غزل

    تیرا دکھ اور آنکھیں بھرنے والا میں

    تیرا دکھ اور آنکھیں بھرنے والا میں تیری خاطر سب کچھ کرنے والا میں خوشبو بن کر جس میں پلنے والا تو ایک ذرا پروائی، بکھرنے والا میں ٹیڑھی میڑھی راہ بنانے والا تو کبھی نہ تھکنے روز گزرنے والا میں تنہائی میں چھوڑ کے جانے والا تو تنہائی سے کبھی نہ ڈرنے والا میں سات سمندر پار ...

    مزید پڑھیے

    کتنا افسردہ ہے خیال اس کا

    کتنا افسردہ ہے خیال اس کا وہ نہیں ہے تو ہے ملال اس کا عکس در عکس سایۂ لرزاں آئینہ آئینہ جمال اس کا کتنا مشکل ہوا جواب مجھے کتنا آسان تھا سوال اس کا لوٹ آتا ہے زخمی خواب لیے خوش یقینی میں احتمال اس کا دیر تک گفتگو اداس رہی خامشی میں بھی تھا خیال اس کا

    مزید پڑھیے

    نئے چہرے پرانے ہو نہ جائیں

    نئے چہرے پرانے ہو نہ جائیں ان آنکھوں کے خزانے کھو نہ جائیں سجا تو لی ہے تم نے مسکراہٹ کہیں یہ ہونٹ زخمی ہو نہ جائیں سفر میں تم ہمارے ساتھ رہنا کہیں ہم راستوں میں کھو نہ جائیں تمہاری منتظر وہ بوڑھی آنکھیں لپٹ کر آہٹوں سے سو نہ جائیں ہماری خوبصورت کیاریوں میں رتوں کے ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    بجھتی ہوئی آنکھوں کی امیدوں کا دیا ہوں

    بجھتی ہوئی آنکھوں کی امیدوں کا دیا ہوں میں تیز ہواؤں کی ہتھیلی پہ رکھا ہوں میں اپنی ہی آواز کی پہچان میں گم ہوں تنہائی کے صحرا میں درختوں کی صدا ہوں میں روز نکل پڑتا ہوں ان جانے سفر پر منزل کے قریب آ کے بھی منزل سے جدا ہوں ہر صبح نئے کرب کے چہروں سے ملاقات ہر شام بچھڑنے کا سبب ...

    مزید پڑھیے

    سحر ہی آئی نہ وہ شاہد سحر آیا

    سحر ہی آئی نہ وہ شاہد سحر آیا غبار شب کا مسافر ہی میرے گھر آیا تھکن کی دھوپ ڈھلی بھی نہیں تھی سر سے ابھی عذاب حکم سفر مجھ پہ پھر اتر آیا دیا جلاتے ہوئے ہاتھ کانپتے کیوں ہیں کہاں سے خوف بدن میں ہوا کا در آیا یہ لمحہ لمحہ بکھرتی ہوئی انا کا وجود نہ یہ زمین نہ وہ آسماں نظر آیا ردا ...

    مزید پڑھیے

    پھولوں کو چھونے سے نشتر زخمی ہوگا

    پھولوں کو چھونے سے نشتر زخمی ہوگا اب کے سر میں لگ کر پتھر زخمی ہوگا کافی دن کے بعد سفر سے لوٹا ہوں میں جسم تھکن سے چور ہے بستر زخمی ہوگا موسم کے چہرے کی شکنیں کہتی ہیں آنکھیں ہوں گی یا پھر منظر زخمی ہوگا موجیں دریا کے سینے پر کیا لکھتی ہیں سوچا تو میں اندر اندر زخمی ہوگا برگ گل ...

    مزید پڑھیے

    راستے خوف زدہ کرتے رہے

    راستے خوف زدہ کرتے رہے ہم سفر میں تھے دعا کرتے رہے مسکرانے کی سزا ملتی رہی مسکرانے کی خطا کرتے رہے عمر بھر قرض ادا ہو نہ سکا عمر بھر قرض ادا کرتے رہے خواب آنکھوں سے جدا ہو نہ سکے خواب آنکھوں سے جدا کرتے رہے آپ نے جو بھی کہا ہم نے سنا آپ نے جو بھی کہا کرتے رہے وقت بھی ہم سے گلا ...

    مزید پڑھیے

    جاگتی آنکھوں کو خوابوں کی سزا دے جائے گا

    جاگتی آنکھوں کو خوابوں کی سزا دے جائے گا پھر پرانا دوست کوئی دکھ نیا دے جائے گا جانے کب ٹوٹے گا یہ لفظ و معانی کا طلسم جانے کب وہ گونگے لفظوں کو صدا دے جائے گا بوڑھی آنکھوں نے سجایا ہے جواں بیٹے کا خواب کانپتے ہاتھوں میں اک خط ڈاکیہ دے جائے گا رات دن لپٹا ہے پیروں سے مرے اندھا ...

    مزید پڑھیے