Jauhar meer

جوہر میر

جوہر میر کی غزل

    کوئی موسم بھی سزاوار محبت نہیں اب

    کوئی موسم بھی سزاوار محبت نہیں اب زرد پتوں کو ہواؤں سے شکایت نہیں اب شور ہی کرب تمنا کی علامت نہ رہے کسی دیوار میں بھی گوش سماعت نہیں اب جل چکے لوگ تو اب دھوپ میں ٹھنڈک آئی تھی جو سورج کو درختوں سے عداوت نہیں اب وہ تو پہلے بھی سبیلوں میں نہیں ہٹتی تھی جس کے بکنے کی دکانوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    درد کی آنکھ سے تیرے غم کا لہو

    درد کی آنکھ سے تیرے غم کا لہو بن کے سیلاب بہنے لگا چار سو دامن دل جھٹک کر کوئی چل دیا گنگناتی رہی دیر تک آب جو خشک شاخوں نے دھرتی کا غم کہہ دیا زرد پتوں کی بچ ہی گئی آبرو بین کرتی ہواؤں کی آشفتگی چھین کر لے گئی کاوش جستجو دیکھنے سوگواران یوسف ہمیں کتنے پیغمبروں کی لٹی ...

    مزید پڑھیے

    عیب بھی تیرے ہنر لگتے ہیں

    عیب بھی تیرے ہنر لگتے ہیں تیری فرقت کا ثمر لگتے ہیں کل جو قدموں میں بچھے جاتے تھے اب وہ سائے بھی شجر لگتے ہیں وہ اڑے پھرتے ہیں حیرت کیا ہے چیونٹیوں کے بھی تو پر لگتے ہیں پی گئیں کتنے سمندر صدیاں اب بھی دریا ہی امر لگتے ہیں ایک سورج ہی تو گہنایا ہے لوگ کیوں خاک بسر لگتے ہیں جل ...

    مزید پڑھیے