Jamuna Parsad Rahi

جمنا پرشاد راہیؔ

جمنا پرشاد راہیؔ کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    سمند خواب وہاں چھوڑ کر روانہ ہوا

    سمند خواب وہاں چھوڑ کر روانہ ہوا جہاں سراغ سفر کوئی نقش پا نہ ہوا عجیب آگ لگا کر کوئی روانہ ہوا مرے مکان کو جلتے ہوئے زمانہ ہوا میں تھا کہاں کا مصور کہ پوجتی دنیا بہت ہوا تو مرا گھر نگار خانہ ہوا اگاؤ درد کی فصلیں کہ زندگی جاگے لہو کی فصل اگاتے ہوئے زمانہ ہوا میں آئینہ ہوں ہر ...

    مزید پڑھیے

    کہسار تغافل کو صدا کاٹ رہی ہے

    کہسار تغافل کو صدا کاٹ رہی ہے حیراں ہوں کہ پتھر کو ہوا کاٹ رہی ہے پیشانی ساحل پہ کوئی نام نہ ابھرے ہر موج سمندر کا لکھا کاٹ رہی ہے الفاظ کی دھرتی پہ ہوں مفہوم گزیدہ اب جسم پہ کاغذ کی قبا کاٹ رہی ہے ہر روح پس پردۂ ترتیب عناصر ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہے فن کار کا خوں دامن ...

    مزید پڑھیے

    بجھے بجھے سے شرارے ہیں زرد شاخوں پر

    بجھے بجھے سے شرارے ہیں زرد شاخوں پر سجا گیا ہے کوئی اپنا درد شاخوں پر سفیر شب کا کوئی اشک ڈھونڈتے ہوں گے ہوا کے جلتے ہوئے ہونٹ سرد شاخوں پر عیاں ہے رنگ تغزل گلوں کے چہروں سے بیاض رنگ نہیں فرد فرد شاخوں پر لپیٹے نور کی چادر میں درد کے سائے بھٹک رہا ہے کوئی شب نورد شاخوں پر ہوا ...

    مزید پڑھیے

    تصویر کا ہر رنگ نظر میں ہے

    تصویر کا ہر رنگ نظر میں ہے کیا بات ترے دست ہنر میں ہے سونا سا پگھلتا ہے رگ و پے میں خورشید ہوس کاسۂ سر میں ہے نکلا ہوں تو کیا رخت سفر باندھوں جو کچھ ہے وہ سب راہ گزر میں ہے اک رات ہے پھیلی ہوئی صدیوں پر ہر لمحہ اندھیروں کے اثر میں ہے پانی ہے سرابوں سے وراثت میں وہ خاک جو دامان ...

    مزید پڑھیے

    خوں گرفتہ ہو تو خنجر کا بدن دکھتا ہے

    خوں گرفتہ ہو تو خنجر کا بدن دکھتا ہے پنجۂ خیر میں ہی شر کا بدن دکھتا ہے پیکر نیم شکستہ ہوں کرو تیشہ زنی بارش گل سے یہ پتھر کا بدن دکھتا ہے کون ہے تجھ سا جو بانٹے مری دن بھر کی تھکن مضمحل رات ہے بستر کا بدن دکھتا ہے مستقل شورش طوفاں سے رگیں ٹوٹتی ہیں ضبط پیہم سے سمندر کا بدن دکھتا ...

    مزید پڑھیے

تمام